تار تار زندگی کو کیسے رفو کیا جائے۔

قومی آواز :ٹورنٹو،
آرٹیکلز25اپریل ، 2020،

تار تار زندگی کو کیسے رفو کیا جائے۔
تحریر : فہد رضوان
ناشر۔ ذوھیر عباس

Photo Credits:Chameleon Brain

دنیا میں وبا کی آندھی چل رہی ہے . بڑے بڑے برج الٹ کر منہ کے بل گر گئے تو ہم کیسے بچ جاتے ؟ مگر خیر ہے .. دوبارہ آٹھ جائیں گے .
امیگریشن پراسس ، نوکریاں ، چھوٹے بزنس،،، زندگی سے لڑنے والے مجھ جیسوں نے، ہم جیسے پسماندہ ملکوں میں جو مستقبل کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی وہ تو سب کرونا کا شکار ہو کر وینٹیلیٹر پر جا پوھنچی ھے…
دنیا اس وبا سے نکلے گی تو شاید بہت مختلف ہو گی. تب تک تو اہم یہ ہے کہ اپنے آپکو مستقبل کیلئے بچائے رکھا جائے سو اچھے دوستوں زندہ ہوں، سلامت ہوں. اپ سب کی محبتوں کا شکریہ جنہوں نے پوچھا، خیر و عافیت دریافت کی . مجھ نالائق کو یاد رکھا .
لینن کا ایک جملہ یاد آ گیا : ”دہائیاں گزرتی ہیں اور کچھ نہیں ہوتا ، پھر کچھ ہفتے گزرتے ہیں اور اس میں دہائیاں گزر جاتی ہیں.”
گزرے ہفتوں میں سمجھ تو ا گئی ہو گی کہ چلانے والوں نے دنیا کن بری ترجیہات پر چلا رکھی تھی اور اب بھی انکی کیا ترجیحات ہیں . کھربوں ڈالر بارود ، اسلحے پر جلا ڈالے. بل گیٹس نے بھی آج سے کوئی سات برس قبل شکایت کی تھی کہ ہماری ترجیحات کو منڈی کی طلب و رسد کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے .مردانہ گنجے پن پر ریسرچ ھو تو زیادہ فنڈنگ ملتی ہے جبکہ ملیریا ، جس سے کروڑوں غریب متاثر ہوتے ہیں ، اس پر ریسرچ کیلئے مناسب روپیہ نہی ملتا۔
دنیا کے وسائل جنگوں، ھتھیاروں، کاسمیٹکس، نت نئی لکثری مصنوعات اور مارکیٹنگ کے بجائے میڈیکل ریسرچ پر خرچ ھوتے تو تصور کیجئے ھم انسانوں نے جیسے ھزاروں سال بعد چیچک کا خاتمہ کر دیا، کیا معلوم کینسر اور اس کمبخت کرونا کا بھی کوئی تریاق نکل ھی اتا۔
خیر یہ تو مہذب دنیا کے معاملات ہیں . ہم تو صدیوں پیچھے، دور وحشت کی سوچ کے ساتھ زندہ معاشرے میں پھنسے بیٹھے ہیں جہاں وباؤں کو خدائی عذاب اور اسکی وجوہات عورتوں کے لباس میں تلاش کی جاتی ھیں (لوگ بلاوجہ اکیلے طارق جمیل کے پیچھے پڑ گئے ، ہمارے تو اپنے منبروں سے یہ بات آغا جواد نقوی سمیت درجنوں علماء اکثر کرتے رہتے ہیں ). ہم تو اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب ویکسین ، علاج دریافت ہو اور ہم ثابت کر سکیں کہ یہ تریاق تو ہماری مقدس کتابوں میں ہزاروں سال پہلے ہی موجود تھا . حرمین کھلے تاکہ مکہ ، مدینہ جا کر کفار کی بربادی کی بددعائیں مانگی جا سکیں . مشہد، کربلا و نجف کھلے۔ خاک شفا لائیں ، اب زم زم لائیں اور اسے چٹا ، پلا کر بیماروں کو شفایاب کریں. ابھی ریسرچ اور دلچسپی کا موضوع یہ ھے کہ مساجد و امام بارگاہوں میں چھے فٹ کے فاصلے سے بیٹھا جائے یا تین فٹ۔ ایکسپرٹ یہ تلاش کر رھے کہ عورت کی شلوار ٹخنے سے کتنی انچ اوپر اور گلے سے قمیص کتنی انچ نیچے ھو تو بالترتیب زلزلہ، سیلاب، وبائیں وغیرہ آیا کرتی ھیں۔
خیر اچھی بات یہ ہے کہ میری نسل وہ سب دیکھ رہی ہے جو آج سے پہلے کسی نسل نے نہیں دیکھا. دنیا کتنی زیادہ تبدیل ہو رہی ہے …. اور اسکے نتیجے میں جو بحث ، گفتگو ہو رہی ہے ، اس سے ذہن بھی تبدیل ہو رہے ہیں . سوال آٹھ رہے ہیں. آسمان کے نیچے کیسی ابتری ہے . اب دیکھنا یہ ہے کہ کیسے یہ ہمارے سوچ کے حق میں سازگار ہوتی ہے … زندہ انسان، صدیوں کی آسمانی غلامی، مردہ انسانوں کی ذہنی غلامی سے نکل کر ریشنل ، سائنٹفک انداز میں سوچیں. اور وہ ایسا شاید تب سوچیں گے جب وہ سرمائے کی غلامی سے نکلیں گے . محور، زندہ انسانی ذات ہونی چاہے اور انسانی ذات تب ترقی کرے گی جب سماج مشترکہ طور پر آگے بڑھے گا . سماجی انصاف، سوشل سکیورٹی اور یکساں مواقع ہوں گے.
اپنی ذات سے شروع ہوا تھا ، جوڑ اسے سماج سے دیا . میری ایکس اکثر یہ نوٹ کیا کرتی تھی کہ تم ہمارے رومان میں یہ اپنی لیفٹ ونگ سیاسی سوچ کیوں گھسیڑ دیتے ہو ؟ مجھے نہیں پتا . میں ایسا ہی ہوں …اور پر امید ھوں ۔۔۔ اپنی زات کیلئے بھی، اپنی نوع انسانی کیلئے بھی (جو نقصان ھوا سو ھوا۔۔۔ اب اٹھ کر دوبارہ دیکھیں گے کہ تار تار زندگی کو کیسے رفو کیا جائے۔۔ )


متعلقہ خبریں