یوں ہو جائے گا، ووں ہو جائے گا

قومی آواز :اسلام آباد

پاکستان 26 اکتوبر ، 2019

یوں ہو جائے گا، ووں ہو جائے گا

(اس مرے ہوئے معاشرے پرایاز میر کا ماتمی کالم )


فضول باتوں میں سر فہرست اصلاح کی امید ہے۔ معاشرے میں اصلاح کی خواہش رکھے عمر گزر گئی۔لیکن بہت عرصے تک معاشرے کی اصلاح کی تڑپ دل میں رہی۔ یوں ہو جائے گا، ووں ہو جائے گا۔ پاکستان کے تناظر میں یہ فضول کے خواب ہی تھے۔ عمر گزرنے کے ساتھ ایسی فضول باتیں پیچھے رہتی گئیں اور اب یہ یقین کامل ہو چکا ہے معاشرے کی اصلاح ایک خوابِ پوشیدہ سے زیادہ کی حیثیت نہ رکھتی تھی۔

اب خواہشات محدود ہو چکی ہیں اور زیادہ تر اس محور کے گرد گھومتی ہیں کہ شام ڈھلے وقت اچھا گزر جائے۔ یہاں ڈھنگ کا تھیٹر شیٹر تو ہے نہیں کہ آرزو پیدا ہو کہ کوئی اچھا ڈرامہ دیکھنے کو ملے گا۔ اب یہی رہ گیا ہے کہ کمرے میں بیٹھیں اور کچھ سامانِ شب… اچھی گفتگو کی شکل میں یا کسی اور پیرائے میں… میسر ہو جائے۔ اصلاح سے باز آئے ، اعلیٰ حب الوطنی سے بھی اجتناب کرنے کو جی چاہتا ہے اور جہاں تک اعلیٰ اخلاقیات کا تعلق ہے پتہ نہیں کب سے وہ دفن ہو چکیں ۔

اپنے لیڈروں کو بھی دیکھیں ۔ کبھی چین کو ماڈل بنایا ہوتا ہے کبھی ریاستِ مدینہ کی بات کرتے ہیں ۔ جو فرائض یا ذمہ داریاں اُن کے ہاتھ چڑھی ہیں وہ بخوبی نبھا نہیں سکتے لیکن اُونچی باتیں مسلسل کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا ایک خاص مرض ہے ۔ مستقبل کی باتیں ہم تواتر سے کرتے ہیں یعنی یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے ۔ لیکن موجود یا حال پہ ہماری گرفت نہیں ہوتی ۔ فی الحال جو کرنے کی ضرورت ہے وہ دسترس سے باہر ہے لیکن اگلے دو سالوں میں یا اگلے پچاس سالوں میں دنیا کو حیران کرنے والا انقلاب برپا کر دیں گے ۔ اب تو بس شام کی پڑی رہتی ہے کہ بور نہ گزرے، ضائع نہ ہو جائے ۔ بستر پہ لیٹیں تو لبوں پہ مسکراہٹ ہو اور اُسی مسکراہٹ کے ساتھ نیند کی آغوش میں چلے جائیں ۔ وحشت اب بوریت سے ہے۔

حیرانی رہتی ہے کہ کتنے وسیع پیمانے پہ اس معاشرے میں ہم نے بوریت کا اہتمام کیا ہوا ہے ۔ رنگ برنگ کا معاشرہ تھا ، کھیلنے کودنے والا معاشرہ۔ اپنے لوک گیتوں اور لوک موسیقی کو ہی دیکھ لیجیے۔ زندگی کی کتنی شوخی ان میں ہے ۔ پنجاب کے ناچ گانوں کو دیکھا جائے، زندگی کی کیسی لہر اُن میں نظر آتی ہے ۔ لیکن پتہ نہیں کون سے منحوس سائے اس دھرتی پہ پڑے کہ ہماری اجتماعی کوشش بن گئی کہ جوش اور زندگی کے تمام آثار دَب کے رہ جائیں۔ بارڈر کے اِس طرف سماج کا ارتقاء اور قسم کا ہوا ہے اور بارڈر کراس کریں تو زندگی کی جھلک کسی اور رنگ میں نظر آتی ہے۔
یہاں بھی خوش مزاجی کو پنپنے کے مواقع مل سکتے تھے لاہور کی انارکلی ، لاہور کا مال اور کچھ مخصوص بازار پورے ہندوستا ن میں مشہور تھے ۔ دہلی میں کوئی فلم سٹوڈیو نہ تھا۔ لاہور میں فلمیں بنتی تھیں۔ صرف فلموں کی بات نہیں زندگی کی باقی تمام روایات جوں کی توں یہاں زندہ رہ سکتی تھیں۔ لیکن منحوس سایوں کا کیا کیا جائے، پڑتے ہیں تو اثر چھوڑ جاتے ہیں۔


متعلقہ خبریں