یہ سب اتفاق ہرگز نہیں ہے ۰۰۰

قومی آواز۔
ٹورنٹو،8 مئی ، 2020،
تحریر : .عائشہ غازی

Photo Credits:  “ایک روزن”

ایکدم سے ہر دوسرے دن کسی نہ کسی بہانے قادیانیوں کی نہ صرف پاکستان کے آئین بلکہ مذہبی حیثیت پر نئے سرے سے بحث چھیڑے جانا ۰۰۰

لاہور میوزیم کے آگے شیطان کا مجسمہ نصب ہو جانا۰۰۰ اور مجسمہ بھی وہ جو “ بیفومیٹ “ کی شبیہہ تھا جو کہ شیطان کو بطور مذہب اپنانے والوں کا symbol ہے ۰۰ پھر اسے عوامی ردعمل پر اتار دیا جانا ۰۰

سید احمد شہید کی جدوجہد سے نظریں چرا کر لاہور کے قلعے میں رنجیت سنگھ جیسے مسلم دشمن مہاراجہ کا مجسمہ نصب ہو جانا جو کہ کسی طور نہ اسلامی تاریخ میں اور نہ ہی پاکستان کی تاریخ میں پزیرائی رکھتا ہے ۰۰۰ اقبال کے یوم پیدائش اور وفات پر مکمل خاموشی لیکن بابا گُرو نانک کے یوم پیدائش پر سرکاری ٹوئیٹس ۰۰

کرتارپور بارڈر پر بنائے گئے گردوارہ میں سکھوں کی مذہبی علامت تلوار نصب ہونا جبکہ واہگہ بارڈر سے کلمہ طیبہ اتار دیا جانا ۰۰۰ یاد رہے کرتارپور بارڈر کے افتتاح کے دن مودی نے کہا تھا آج ہم نے سرحد پگھلا دی ہے ۰۰

کرتارپور راہدراری کے فوراً بعد آزاد کشمیر میں صدیوں سے متروک شدہ شاردا مندر کو دوبارہ بنا کر بھارتی ہندو زائرین کو اس تک راہداری دینے پر کام جاری ہے ۰۰(شاردا مندر کی تفصیل اگلی پوسٹ میں ) ۰۰ سیالکوٹ سے ژوب تک صدیوں سے بے آباد پڑے چار سو مندروں پر کثیر بجٹ لگا کر انہیں دوبارہ قابل استعمال بنانے کا کام بھی زور شور سے جاری ہے ۰۰ لیکن حج کی سبسڈی ختم کر دی گئی ۰۰

ایک طرف مقبوضہ کشمیر یعنی پاکستان کے ایک حصے پر مودی کے آئینی قبضے کے بعد بے غیرت حد تک خاموشی اور دوسری طرف جرات کا یہ عالم کہ پاکستان کی پارلیمان میں اسرائیل کو تسلیم کیے جانے پر تقریر ہونے دی گئی ۰۰

میرا جسم میری مرضی کی سرکاری سرپرستی لیکن کہیں اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے والے یقیناً شدت پسندوں کے “سہولت کار “ہیں ۰۰۰

اور اب ٹیپو سلطان کی شہادت کے دن ۰۰۰ راجہ داہر کو سندھ کا ہیرو قرار دینے کی گھٹیا مہم کسی باولے نے اچانک بیٹھے بیٹھے شروع نہیں کی ۰۰۰۰ جسے ٹوئیٹر پر خود بخود مقبولیت حاصل ہو گئی ہو ۰۰۰

یہ سب سوچا سمجھا ہے ۰۰۰ یہ ہماری اسلامی شناخت اور مذہبی جذبات پر مسلسل اور باقاعدہ تیاری کے ساتھ مختلف سمتوں سے حملہ ہے ۰۰۰ کیونکہ پاکستان کے عوام میں “امت” ہونے کا احساس اور شعور بہت گہرا ہے ۰۰۰ اور “اُمت” کا احساس ختم ہو جائے تو سمجھ لیں کہ پاکستان کی نظریاتی سرحد ختم ۰۰۰ اگر ہم اپنی زبان ، قومیت ، صوبائیت کو اپنے اُمتی ہونے ہر ترجیح دینے لگیں تو بھٹو کے پنجابیوں پر نواز شریف کی سندھیوں پر حکمرانی کرنے کا جواز ختم ہو جاتا ہے ۰۰۰ ہمارے درمیان ایک ہی بائنڈنگ فورس ہے ، وہ ہے اسلام ۰۰۰ پاکستان کو سیکیولر کر دیں ، یہ اپنی موت آپ مر جائے گا ۰۰

اور جو یہ کر رہے ہیں ، انہیں اپنا ہدف معلوم ہے لیکن یہ جانتے ہیں ان مقاصد کا حصول ایسے معاشرہ میں جو اسلامی جذبات میں گندھا گیا ہو، اتنا آسان نہیں ہے ۰۰ اس کا ثبوت راجہ داہر اور محمد بن قاسم کے بارے میں بی بی سی پر چھپے کل کے آرٹیکل سے یہ اقتباس ہے :

“امور سندھ پر تحقیق کرنے والے ماہر بشریات رفیق وسان نے گذشتہ سال شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں جی ایم سید کی جانب سے راجہ داہر کو بطور ہیرو پیش کرنے پر تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کا سیاسی مقصد تھا اور وہ پاکستانی ریاست کو ’اسلامائز‘ کرنے کی مخالفت کرنا تھا۔‘

رنجیت سنگھ کا مجسمہ نصب کرتے ہوئے ٹوئٹر پر کچھ لوگوں نے راجہ داہر کے مجسمے کا مطالبہ کیا۰ اس مطالبے پر رفیق وسان کہتے ہیں کہ راجہ داہر کو بطور ہیرو تسلیم کرنا اور ان کا مجسمہ قائم کرنا ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ ایسا کرنا پاکستان کی اساس کے خلاف جاتا ہے۔”

یہ “حکومت ” چلتی رہی تو حالات معلوم نہیں کہاں تک پہنچیں ۔۔


متعلقہ خبریں