استخارہ کا بہانہ بنا کر رشتوں کو مسترد کرنا سوسائیٹی کا اک شرمناک رواج

قومی آواز ۔

یہ تو ہم شروع سے سنتے آ رہے ہیں کہ ” رشتے آسمانوں پہ طے ہوتے ہیں” پھر بھی ہر کوئی رشتے نہ ہونے یا دیر سے ہونے کی پریشانی میں مبتلا ہے۔ ہر دوسرے تیسرے گھر میں یہی مسئلہ ہے۔ لڑکیوں کی عمریں گزرتی چلی جا رہی ہیں اور والدین اس پریشانی میں وقت سے پہلے بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں۔ والدین کی اولاد کوجوانی کے ڈھلتے موسم اکیلے گزارتے دیکھ دیکھ کے ذہنی اذیت اور کرب کی کیفیت ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔

اسلام میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس بولا گیا ہے۔ مرد اور عورت سنت رسول ﷺ کے مطابق نکاح کے اعلیٰ اور مقدس طریقہ سے ایک بندھن میں بندھ جانے کے بعد زندگی کے نئے سفر کا آغاز کرتے ہیں اور ایک ایسے گھرانے کی بنیاد رکھتے ہیں جس پر اُن کے خاندان کی آئندہ نسلوں کی خوشیوں کا انحصار ہوتا ہے۔
لڑکے بلند معیار ِ زندگی کے چکر میں زندگی کے قیمتی سال جو اُن کو اپنی شریکِ زندگی اور آنے والی اولاد کے ساتھ گزارنے چاہییں، پیسہ جمع کرنے اور نا ختم ہونے والی خواہشات کے چکرمیں اپنے آپ کو پیس رہے ہیں۔ میڈیا کے خوبصورتی اور گلیمر کا پرچار اسقدر کیا جارہا ہے کہ اب لڑکے اور اُن کے والدین آنے والی بیوی اور بہو کے روپ میں ایک سجی سجائی گڑیا تلاش کرتے ہیں۔ اب تو معیار اس قدر تلخ ہو گیا ہے کہ مناسب شکل و صورت کی لڑکیاں بھی مسترد کر دی جاتی ہیں

کیا ہی ستم ظریفی ہے کہ ایک سانولے اور عام قد وقامت کے مالک لڑکے کے والدین بہو کے روپ میں نہایت حسین خوبصورت اور گوری لڑکی تلاش کرتے ہیں۔ جبکہ اُن کے گھر میں بھائی سے مشابہت رکھنے والی لڑکی (بہن اور بیٹی ) کے روپ میں رشتے کے انتظار میں اپنی عمر گزار رہی ہوتی ہے۔

دوسرا قابلِ مذمت پہلو یہ بھی ہے کہ اگر کہیں لڑکیوں کے اچھے رشتے آتے ہیں تو ماں باپ خود یا لڑکیاں منع کر دیتی ہیں، اچھے سے اچھے کی تلاش ایسی لڑکیوں اور ان کے والدین کو اُس منزل تک لے جاتی ہے کہ ..اب سب چلے گا

اسی طرح اگر کسی خاندان میں کوئی بیٹی کے لائق اُس کے معیار کے مطابق رشتہ ہی نہ ہو تو تب بھی لڑکی کی عمر گزر جاتی ہے اور جب رشتے آنا بالکل بند ہو جاتے ہیں تو والدین اور خصوصاََ مائیں ہر ایک سے کہتی نظر آتی ہیں کہ میری بیٹی کے رشتے پہ بندش لگوا دی ہے، جادو کروا دیا ہے،کالا علم کروا دیا ہے، اور ایسی ہی بہت سی باتیں ایک لامتناہی اذیت کو کم کرنے کیلئے کہی اور سُنی جاتی ہیں، ایسے لوگ پھر ایک نئی اذیت کو اپنے گھر میں دعوت دیتے ہیں اور توہم پرستی کا شکا ر ہو جاتےہیں، اور اس مد میں اپنے بیوقوفی کے رویوں کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔اور اسی توہم پرستی کے تحت خاندان میں اگر کوئی ہم پلہ اور جوان لڑکا موجود نہ ہو تو نوجوان لڑکی کا نکاح شیرخوار بچے یا ستر اَسی سال کے بڈھے سے کر دیا جاتا ہے۔

زیادہ تر آجکل یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ لڑکی کے والدین یہ چاہتے ہیں کہ اُن کی بیٹی کی شادی کسی مختصر خاندان میں ہو ، لڑکا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو ، رہائش کا معیار اعلیٰ ہو ، کوٹھی کار کا مالک ہو ، تنخواہ یا بزنس میں پانچ حروف سے اوپر ہو اور مزید اس پہ مستزاد یہ کہ لڑکا لڑکی کے درمیان پانچ چھ سال کو فرق ضرور ہو یعنی لڑکا لڑکی سے عمر کے تناسب میں بھی بڑا ہو۔اس موقع پر وہ آقا کریم جناب محمد مصطفیٰ ﷺ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمروں کے فرق کو دیکھنا بھول جاتے ہیں اور پھر محض اپنی سطحی سوچ سے رشتوں سے انکار ہو تا رہتا ہے۔

اس قسم کی سوچ اور غیر ضروری معیارات کی درجہ بندیاں رشتوں کے مسئلے میں سنگینی کو بڑھا دیتی ہیں، اگر والدین اسلام کے زریں اصولوں پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے ان غیر ضروری معیارات کو ختم کر دیں تو بہت حد تک ان معاملات میں بہتری ممکن ہے۔آجکل رشتوں کی تلاش میں لڑکے والوں کا معیار ظاہری خوبصورتی بھی بن چکی ہے۔ لڑکی کی موٹی ناک، چھوٹا قد، رنگ اور اسی طرح کی دوسری معمولی باتوں کو بنیاد بنا کر رشتے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس معاملے کو دیکھا جائے تو کسی بھی انسان حتیٰ کہ کسی بھی جاندار کی شکل وصورت صرف اور صرف ” اللہ رب العزت کی تخلیق “ہے اور ہم ایسے معیار ات کا بندھن باندھ کے خود سے “اللہ کی تخلیق” پہ تنقید کے گناہگار بھی ہیں اور کہیں نہ کہیں اس کی کسر ہماری زندگیوں میں سے ہی نکل رہی ہے جو کہ ہم سمجھتے نہیں یا سمجھنا نہیں چاہتے۔
آجکل اچھے رشتوں کا “کال” پڑ گیا ہے اور برائی کی آندھیاں تیز تر چل رہی ہیں، گناہ عام ہوتا جا رہا ہے، اور نکاح کی مسنون سنت کو ہم پسِ پشت ڈالنے کے گناہگار بن رہے ہیں، زنا کی بڑھتی ہوئی یہ روش کسی بھی خاندان، معاشرہ اور ملک وقوم کیلئے زہرِ قاتل سے کم نہیں۔ نوجوان نسل بہت تیزی سے تباہی کی روش اپنا رہی ہے، اکثر سننے میں آتا ہے کہ ” تُو نئیں تے ہو ر سہی”۔ مگر ہمارے سوئے ہوئے معاشرے کو اس سنگینی کا اندازہ نہیں ہو پا رہا کہ انسانی قدر ختم ہو تی جا رہی ہے اور ہوس پرستی نئی نسل میں رواج کی جا رہی ہے جس کیلئے معاشرہ اور ملک وقوم برابر کے مجرم ہیں۔

لوگ آجکل منع کرنے ک بجاے بلعموم لڑکے والوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ استخارہ کا بہانہ بنا کر اچھے سے اچھے رشتوں کو یکسر رد کر دیا جاتا ہے جو کہ سوسائیٹی کا اک شرمناک رواج بن گیا ہے ۔ اس لئے یہ اب ضروری ہو گیا ہے کہ ہم واپس اسلام کے زریں اصولوں کی طرف لوٹ جائیں، ورنہ حقوق کے پندار میں ہوتے ہوئے ان چوریوں کی “کل قیامت میں جوابدہی بھی کرنی ہے”۔ اس کاسب سے آسان اور بہترین حل یہ ہے کہ “استخارہ ” ایک بہترین راستہ ہے جو کہ سنتِ رسول ﷺ ہے اور اللہ تعالیٰ سے بہتر مشورہ بھلا کون دے سکتا ہے۔ اس لئے اسلامی راستہ اور اسلامی زندگی کو اپنائیں تاکہ اولاد کیلئے بھی آئندہ زندگی گزارنی آسان ہو۔ کچھ لڑکے والے بھی اپنے سخت معیارات میں کمی لائیں تو بہت سی لڑکیاں مناسب عمر میں ہی بیاہی جائیں گی۔ اگر آپ کسی کی بیٹی کا بھلا کریں گے تو آپ کا خود بخود بھلا ہوگا۔ اگر مندرجہ ذیل معیارات اور اسباب دور کر لیں تو شادی بیاہ کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں:
٭…..لڑکیاں بہت زیادہ تعلیم حاصل کرنے کی صورت میں بھی ہم پلہ رشتہ تلاش کرتی ہیں۔
٭….. لڑکے والوں کا بے حد حسین لڑکی تلاش کرنا ۔
٭….. ذات پات کے چکر میں بہت سے اچھے رشتے طے ہونے سے رہ جاتے ہیں۔
٭….. بھاری بھرکم جہیز کا مطالبہ بھی شادی نہ ہونے کی بڑی وجہ اور سبب ہے۔
٭….. چھوٹے اور کم افراد والے خاندان کی تلاش بھی لڑکیوں کو گھر بٹھائے رکھتی ہے۔
٭….. لڑکے زیادہ سے زیادہ کمائی اور امارت حاصل کرنے کے چکر میں شادی دیر سے کرنا چاہتے ہیں۔
٭….. وٹے سٹے کی نحوست جس سے ہمارے آقا کریم ﷺ نے نفرت فرمائی ہے، بھی شادیوں میں رکاوٹ بنتا ہے۔
٭….. والدین انجینئر، ڈاکٹر، بزنس مین داماد اور لکھ پتی داماد کی تلاش میں اپنی لڑکیوں کی شادی کی عمر ضائع کر دیتے ہیں۔
٭….. مہنگائی کے نامساعد طوفان کی وجہ سے بہت سے لڑکے نوکری پیشہ خواتین اور لڑکیوں سے شادی کو ترجیح دینا شروع ہو گئے ہیں اور اس غرض سے “اعلیٰ سلیکشن” کے چکر میں شادی کی عمر ضائع کرتے ہیں۔
٭….. عموماََ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک گھر میں اگر تین چار بہنیں ہوں تو اب اگر دوسرے یا تیسرے نمبر کی بہن کا رشتہ پہلے آ جائے تو ماں باپ رشتہ نہیں کرتے کہ نمبر سےشادی ہوگی یوں ایک کے چکر میں دوسری بہن بھی انتظار کی سولی پہ لٹکی رہتی ہے۔
٭….. بہت سے گھرانوں میں اب یہ بھی ہونے لگا ہے کہ بھائی اُس وقت تک شادی نہیں کرتے جب تک اُن کی تمام بہنیں نہ بیاہ دی جائیں