اپنے حج کی حفاظت کیجیے

قومی آواز ۔ ٹورنٹو ۔
10 اگست ، 2019
بقلم: مولانا سیدسلیمان یوسف بنوری
حج ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن ہے اور بشرط قدرت و استطاعت فرض ہے۔ قدرت استطاعت کی تفصیل یہ ہے کہ اس کے پاس ضروریاتِ اصلی سے زائد اتنا مال ہو جس سے وہ بیت اللہ تک آنے جانے اور وہاں کے قیام کا خرچ برداشت کرسکے، اور اپنی واپسی تک ان اہل و عیال کا بھی انتظام کرسکے جن کا نفقہ ان کے ذمہ واجب ہے، نیز ہاتھ، پاؤں اور آنکھوں سے معذور نہ ہو، کیونکہ ایسے معذور کو تو اپنے وطن میں چلنا پھرنا بھی مشکل ہے، وہاں جانے اور ارکانِ حج ادا کرنے پر کیسے قدرت ہوگی! اسی طرح عورت کے لیے چونکہ بغیر محرم کے سفر کرنا شرعاً جائز نہیں، اس لیے وہ حج پر قادر اس وقت سمجھی جائے گی جبکہ اس کے ساتھ کوئی محرم حج کرنے والا ہو، خواہ محرم اپنے خرچ سے حج کررہا ہو، یا یہ عورت اس کا خرچ بھی برداشت کرے، اسی طرح وہاں تک پہنچنے کے لیے راستہ کا مامون ہونا بھی استطاعت کا ایک جزء ہے، اگر راستہ میں بدامنی ہو، جان و مال کا قوی خطرہ ہو تو حج کی استطاعت نہیں سمجھی جائے گی۔
دوسری بات یہ کہ جو صراحۃً فریضۂ حج کا منکر ہو اس کا دائرہ اسلام سے خارج اور کافر ہونا تو ظاہر ہے، اور جو شخص عقیدہ کے طور پر فرض سمجھتا ہے، لیکن باوجود استطاعت و قدرت کے حج نہیں کرتا، وہ بھی ایک حیثیت سے منکر ہے ہے کہ یہ شخص کافروں جیسے عمل میں مبتلا ہے، جیسے کافر و منکر حج نہیں کرتے یہ بھی ایسا ہی ہے، ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو باوجود قدرت و استطاعت کے حج نہیں کرتے کہ وہ اپنے اس عمل سے کافروں کی طرح ہوگئے۔ (العیاذ باللہ
اللہ کا فضل ہے کہ عمومی طور پر مسلمان اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے بڑے شوق و جذبہ کے ساتھ اور عمر بھی کی جمع پونچی سے بچا کر روانہ ہوتے ہیں، مگر شیطان تو ہمارا ازلی دشمن ہے، وہ اپنی باطل محنت سے مایوس ہوتا ہے نہ ہمت ہارتا ہے، چنانچہ حج پر جانے والے کے حج کو خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے، تا کہ مسلمان حج کے مطلوبہ مقاصد حاصل نہ کرسکیں، چنانچہ مقاصد حج میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حاجی از روئے حدیث‘ اللہ کے دربار میں دیگر مخلوقِ خدا کا نمائندہ ہوتا ہے جو امت کے درپیش مسائل کے حل کے لیے خالق دو جہاں کے دربار میں گیا ہوا ہے۔
اس لیے حج کے کاموں میں سے ایک کام دعا کی قوت کا بڑھانا ہے، جتنا ہوسکے اس میں حاجی کا وقت صرف ہو، یہی وجہ ہے کہ طواف، سعی، دیگر مناسک حج کے مواقع پر کوئی ذکر خاص کرکے نہیں بتایا گیا، پھر دعا میں بھی ہماری حالت یہ ہے کہ وقتی، فوری، فانی حاجت کے طرف تو ذہن جلدی چلتا ہے، مگر اُخروی معاملات یا امت کے اجتماعی مسائل کے متعلق مانگنا رہ جاتا ہے۔ اس لیے حجاج کرام سے گزارش ہے کہ اس استخضار سے عرفات پہنچیں کہ اس دفعہ امت کے مسائل کے حل کے لیے اللہ رب العزت سے مانگے بنا واپس نہیں آئیں گے۔
حج کو خالص اللہ تعالی کی عبادت، شرعی فریضہ اور ذریعۂ بخشش و مغفرت ہونے کے اعتقاد کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ اگر کسی حاجی کے عزم میں عبادت کا پہلو ذرا بھر ناقص ہوگا، مثلاً: ریا کاری، سیاحت و غیرہ کا عنصر ہوگا تو ایسے عازم حج کا عمل حج شمار نہیں ہوگا، بلکہ وقت کا ضیاع، اعمال کی بربادی اور جانی مشقت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ اگر حج میں اخلاص و للہیت، فریضہ کی ادائیگی تو ہو مگر منکرات سے خالی نہ ہو تو ایسا حج بھی حقیقی حج نہیں کہلائے گا۔ بنیادی منکرات جو کئی بڑی منکرات کی بنیاد، منبع او رمرکز ہیں وہ قرآن کریم کی سورۂ بقرہ کی آیت: ۱۹۷ میں رفث، فسوق اور جدال کے عنوان سے مذکور ہیں:
۱: ’’رفث‘‘
’’رفث‘‘ کا مفہوم ہے: ’’فحش گوئی میں مبتلا ہونا اور عورتوں سے ایسی باتیں کرنا جو جماع کا داعیہ اور اس کا پیش خیمہ بنتی ہوں۔‘‘ عورتوں کے ساتھ ناجائز میل جول، اختلاط تو ویسے بھی حرام ہے، یہاں دوسروں کے بارے میں نہیں بلکہ بیوی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ میاں بیوی کا آپس میں بے حجاب ہونا، مباشرت کرنا یا آپس میں شہوانی باتیں کرنا حج کے دنوں میں اس کا قطعاً کوئی جواز نہیں، اس لیے دورانِ حج مرد اور خواتین حجاج کرام کو رفث سے بچنا از بس ضروری ہے، ورنہ حج کے بے مقصد ہونے، ضائع ہونے یا فاسد ہونے کا شدید اندیشہ ہے۔ اگر حج کے افعال میں کمی رہی، دیگر فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی رہی اور حج منکرات سے محفوظ نہ رہا تو یہ اس بات کی ظاہری علامت ہوگی کہ آپ کا حج ’’حج مبرور‘‘ نہیں ہے۔ حج ایک اجتماعی اور پرہجوم عبادت ہے جس میں قدم قدم پر مرد و زن کا اختلاط ہوتا ہے اور پھر احرام کی حالت میں عورتوں کے چہرے ویسے بھی کھلے ہوتے ہیں، ہر وقت ایک دوسرے پر نظر پڑنے کا موقع رہتا ہے، ایسی صورت میں حاجی اگر اپنے نفس کا لگام نہ دے اور اپنی خواہشات پر تقویٰ کی زنجیر نہ باندھے تو ا س کی نگاہیں کسی وقت بھی آوارہ ہوسکتی ہیں۔
فی زمانہ کثرت و ازدحام کی وجہ سے طواف، سعی اور دیگر مقامات کے علاوہ راستوں میں خواتین بے پردہ، چست یا نامناسب لباس میں بڑی جسارت کے ساتھ گھوم رہی ہوتی ہیں۔ عورتوں پر لازم ہے کہ وہ مکمل لباس اور عبایا و غیرہ کا اہتمام کریں اور رش میں مردوں کے ساتھ اختلاط سے یا التصاق سے حتی الوسع بچیں، آمد و رفت کے دوران راستے کے ایک طرف چلیں اور حرم میں خواتین کے لیے مخصوص جگہ تک محدود رہیں۔ مردوں پر بھی فرض ہے کہ نظروں کی حفاظت کریں، اپنے آپ کو خواتین کے ساتھ دھکم پیل سے بچائیں اور اگر خواتین کہیں بے احتیاطی کا مظاہرہ کررہی ہوں تو مرد حضرات کم از کم کوتا ہی میں شریک نہ ہوں، وہ اپنا راستہ اور جگہ بدلنے کی کوشش کریں۔ اگر خدا نخواستہ مرد و خواتین کے اختلاط سے نفس میں ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی تو یہ ’’رفث‘‘ کے زُمرے میں آئے گا اور حج ’’فاسد‘‘ نہ سہی ’’ناقص‘‘ ضرور ہوگا ور ان کا حج ’’حج مبرور‘‘ نہیں ہوگا اور حج کا جو اُخروی صلہ ہے اس سے محرومی کا ذریعہ بھی ہوگا۔

۲: ’’فسوق‘‘
’’فسوق‘‘ فسق کی جمع ہے۔ فسق دائرہ طاعت سے نکلنے کا نام ہے، یعنی شریعت کے احکام کی نافرمانی مراد ہے۔ حج کے دوران شریعت کے کسی حکم کی بھی خلاف ورزی کا تصور بھی نہیں ہونا چاہیے۔ یوں تو ایک مومن کی عام زندگی بھی اللہ کے احکام کی پابند ہے، لیکن حج کے دوران اس پابندی کے احساس کئی گنا بڑھ جانا چاہیے۔ حج کے دوران حج کے تمام مناسک کے علاوہ دیگر فرائض بالخصوص نماز باجماعت کا اہتمام کرنے کے علاوہ واجبات، سنن اور نفل کا اہتمام کرنا، حسبِ توفیق صدقہ خیرات کرنا یہ سب طاعات ہیں، ان کی بجا آوری کی بھرپور کوشش کی جائے۔ اگر کسی حاجی کو ایسے اعمال میں رغبت کی کمی محسوس ہو تو اُسے توبہ و استغفار کرتے ہوئے طاعات کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگر کوئی حاجی طاعات میں کوتاہی کا شکار ہونے کے علاوہ اگر منکرات کا مرتکب بھی ہو، ایسے اُمور کا ارتکاب کرتا ہو جو شرعاً حرام، ممنوع اور ناجائز ہیں، ایسا حاجی بھی حجِ مبرور کی سعادت سے محروم ہے۔ اس وقت حج کے دوران بعض حجاج کرام مندرجہ ذیل فسوق و منکرات کا بہت زیادہ شکار رہتے ہیں:
الف: اپنا وقت حرمین شریفین میں ہونے کے باوجود نہ صرف نیک اعمال سے محروم رہتے ہیں، بلکہ اُلٹا کئی گناہوں کا ارتکاب کررہے ہوتے ہیں۔ حرمین میں حسبِ مواقع طواف، تلاوت، ذکر و اذکار اور درود و سلام میں وقت گزارنا چاہیے، مگر بعض حاجی صاحبان یہ قیمتی مواقع ضائع کرتے رہتے ہیں اور مختلف دنیوی موضوعات پر بحث و مباحثوں میں مصروف رہتے ہیں اور بعض غیبت، عیب جوئی، لعن طعن اور گالم گلوچ اور سوقیانہ گفتگو سے بھی نہیں بچتے، یہ سب باتیں گناہ ہیں جو حرمین شریفین کی عظمت کی وجہ سے گناہِ عظیم بن جاتے ہیں اور حج کے موسم کی وجہ سے فسق کی بدترین شکل ہے۔
ج: بعض حجاج بلکہ اکثریت حرمین شریفین میں اللہ تعالی کے ساتھ راز و نیاز کی بجائے تصویرسازی کے گناہ کبیرہ میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ہر مقدس مقام پر اس گناہ کبیرہ کا ارتکاب ایک معمولی عمل بلکہ فیشن بن چکا ہے۔ اس میں اچھے خاصے علماء اور دین دار لوگ بھی شامل ہوتے ہیں، جن کی دیکھا دیکھی عوام کے دلوں میں اس گناہِ عظیم کا احساس گناہ بھی رخصت ہوچکا ہے اور اس کی حرمت پامال ہو رہی ہے، جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویر سازی کے عمل کو قیامت کے دن شدیدترین عذاب کا مستوجب قرار دیا تھا۔ جو حجاج کرام اپنے حج کو اور مقدس مقامات کی حاضری کو تصویر سازی کے گناہ کے ذریعہ یادگار بنانے کے درپے رہتے ہیں، انہیں تصویر کے گناہ کی سنگینی کا اندازہ ہے نہ اپنے حج کے ضائع ہونے کا ادراک ہے۔ حجاج کرام کے چاہیے کہ کم از کم اس مختصر سفر سعید میں تو اس گناہ کو خیرباد کہہ دیں، تا کہ حج ’’فسوق‘‘ سے خالی کہلا کر ’’حجِ مبرور‘‘ بن سکے۔

۳: ’’جدال فی الحج‘‘
اللہ تعالی نے حج کے دوران نفس کی خواہشات کو کنٹرول کرنے اور فسق و فجور کی جملہ انواع کو ممنوع قرار دینے کے بعد جدال کو بطور خاص ذکر فرمایا، جس کی بظاہر حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ سفر کے دوران یا مکہ معظمہ اور مدینہ منور ہ میں قیام کے حالت میں پھر خصوصا ایام حج میں منیٰ اور عرفات میں قدم قدم پر جھگڑے کا امکان ہوتا ہے۔ انسان جو اپنی شخصیت اور طبیعت کی تہوں میں اپنی بہت ساری کمزوریوں کو چھپائے رکھتا ہے، سفر کے دوران یہ ساری کمزوریاں کھل کر سامنے آجاتی ہیں اور اگر یہ سفر طویل بھی ہو اور کئی دنوں پر محیط بھی تو پھر تو شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو اپنے آپ کو سفر کے اثرات سے محفوظ رکھ سکے۔ قدم قدم پر ایسے مواقع آتے ہیں جہاں مختلف طبیعتیں باہمی طبعی اختلاف کے باعث ایک دوسرے سے اُلجھتی ہیں۔ دوسروں کو تو جانے دیجئے خودمیاں بیوی اور رُفقائے سفر میں سے قریبی عزیز تک ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے تنبیہ کردی گئی ہے کہ اگر تم واقعی حج کو ایک عبادت سمجھ کر ادا کررہے ہو تو تمہیں اس کا احساس ہونا چاہیے کہ جب تک تم اپنی نگاہوں کو پاکیزہ، اپنے قلب و دماغ کو شائستہ اور اپنے جذبات کو ہر حال میں آسودہ رکھنے کی کوشش نہیں کروگے اور یہ فیصلہ نہیں کرلوگے کہ یہاں مجھے کسی کا دل نہیں دکھانا۔ کیونکہ اس سے بڑے برائی کوئی نہیں۔ مجھے ہر حال میں اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ اس کی رضا کے لیے نوافل کی کثرت اور طوافوں کا کثیر سرمایہ بھی درکار ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے جذبات، اپنی عادات اور اپنے رجحانات کی اصلاح بھی ضروری ہے جو اس سفر کے ذریعے کی جارہی ہے، وہ اسی صورت میں ممکن ہوسکتی ہے کہ ہم ان بنیادی کمزوریوں سے بچنے کی کوشش کریں۔
سفرِ حج کے دوران سفری تعب کے علاوہ شیطان کے حسد اور دیرینہ عداوت کے نتیجہ میں حجاج کرام کی برداشت کا معاملہ انتہائی نازک ہوجاتا ہے، معمولی معمولی باتوں پر غصہ آجانا اور ایک دوسرے سے بھڑنے کے لیے تیار ہوجانا ایک طرح سے فطری مجبوری سمجھا جاتا ہے۔ جب حاجی اپنے ملک کی ایمیگریشن سے گزرتا ہے تو یہاں کی ناگواری پر برہم ہوتا جاتا ہے، راستہ میں کسی حاجی کے سامان کی ٹرالی کسی دوسرے کی ٹرالی سے ٹکرائی تو اس پر شور شرابہ شروع ہوجاتا ہے۔ اگر کسی سے لائن میں بے احتیاطی ہوئی تو اس کی تنبیہ و سرزنش کو حج کا حصہ سمجھ کر غوغا برپا کردیا۔ ائیرپورٹ پر بے تربیتی، بے رخی اور بد انتظامی پر جذباتی ہوجا نا اور جذبات کی تسکین کے لیے ائیرپورٹ کے عملے یا دوسرے حاجیوں کے ساتھ لعن طعن، سب و شتم اور عیب جوئی کا تبادلہ شروع کردینا اور ترش روئی میں میزبانوں سے مقابلہ کرنا بھی سفرِ حج میں جدال کی ایک ممنوع شکل ہے، اس سے احتراز کیا جائے۔
نیز حرمین کے پاس مقررہ رہائش گاہ پہنچنے کے بعد حج گروپ یا ہوٹل کے عملہ کے ساتھ اخلاق و اخلاقیات کا مقابلہ شروع کیا جاتا ہے، ان سے مختلف امور میں اُلجھاؤ کی نوبت بھی آتی رہتی ہے،اس سے بچنا چاہیے۔ ایک کمرے میں رہنے والے سامان رکھنے اور بستر بچھانے میں اختلاف کرتے ہیں۔ بس پر چڑھتے ہوئے سیٹ کے حصول کے لیے اور معمولی آرام کی طلب میں ایک دوسرے کی عزت نفس پامال کرتے ہیں۔ وضوخانوں اور بیت الخلا کے سامنے لگی قطاروں میں بجانے کتنی زبانیں بے لگام ہوجاتی ہیں۔ بازاروں میں اشیائے ضرورت خریدتے ہوئے نجانے کس کس سے اُلجھاؤ پیدا ہوتا ہے۔ یہ بھی ’’جدال فی الحج‘‘ کی ممانعت سے خارج نہیں ہے۔
ان تمام باتوں سے بڑھ کر مناسک حج کے دوران مقامی انتظامیہ کے باوردی اور بے وردی بعض منتظمین کی سختی کا جواب ترکی بہ ترکی دینے کی کوشش کی جاتی ہے یا ان کی فہمائش کے لیے ان سے بحث و مباحثہ کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک دوسرے کے لیے بے وقعتی و بے احترامی کے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں اور ان جذبات کا اظہار زبان سے کیا جائے یا رویے سے کیا جائے، یہ بھی مجادلہ کی ایک شکل ہے، دوران حج اس سے اجتناب کیا جائے۔ گروپ انتظامیہ کے افراد کی سختی، بدخلقی یا تحقیر آمیزی کو حرمین شرفین کی عظمت کا پاس رکھنے اور اپنے حج کو جدال و نزاع سے بچانے کے لیے برداشت کیا جائے۔ سرکاری یا پرائیوٹ حج پا جانے والے حجاج وہاں رہتے ہوئے فارغ اوقات کے دوران حج گروپوں کے درمیان باہمی تقابل اور مقابلہ بازی شروع کردیتے ہیں کہ فلاں گروپ اچھا ہے، یا فلاں گروپ میں اتنی آسائشیں ہیں، اپنے حج گروپ کی برائی یا انتظامیہ کی غیبت یا اُن کے ساتھ جھگڑا کرنے لگ جاتے ہیں تو اس نوعیت کی فضول بحث اور گفتگو سے بھی مکمل اجتناب کی ضرورت ہے۔
بعض حجاج کرام یا کچھ میزبان نما حضرات اپنی نادانی، ناپختہ کاری اور غلبۂ جہالت کی بناپر اس مقدس سفر میں صدیوں پرانے اختلافی مسائل کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر ایک اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنے کی ناروا کوشش کرتا ہے۔ ایسے تمام مسائل میں اُلجھ کر قیمتی وقت ضائع نہ کیا جائے، بلکہ ہر حاجی اپنے مسلک کے تحت جو تربیت لے کر گیا ہے، اس کے مطابق مناسک ادا کرتا رہے، کیونکہ یہ اختلافی مسائل علمی نوعیت کے ہو کر جب غیرعلمی لوگوں کے درمیان غیرعلمی انداز سے زیر بحث آتے ہیں تو اس سے جاہلانہ مقابلہ و مجادلہ جنم لیتا ہے جو حج کے ان بنیادی منکرات میں ایک ہے جسے حق تعالی شانہٗ نے بطور خاص ممنوع قرار دیا تھا۔
اس لیے حجاج کرام سے گزارش ہے کہ وہ اپنے حج کو اخلاص و للہیت سے معمور کرتے ہوئے فریضۂ خداوندی کی ایسی ادائیگی کی کوشش کریں کہ تمام ارکان، واجبات، سنن اور مستحبات کی رعایت رکھیں اور ہر قسم کے صغیرہ و کبیرہ گناہوں کی آلودگی سے اپنے حج کو بچائیں۔
اور کسی قسم کے جدال و نزاع کا حصہ نہ بنیں، یہی حج کی اصل روح ہے۔ جس حاجی کو حج کے دوران حج کی یہ روح نصیب رہی تو امید ہے کہ ان شاء اللہ! اس کا وہ حج ’’من حج للہ فلم یرفث و لم یفسق رجع کیوم ولدتہ أمہ‘‘ کا مصداق ہوگا اور ’’الحج المبرور لیس لہٗ جزاء الا الجنۃ‘‘ کی ضمانت و نیک فالی ثابت ہوگا، ان شاء اللہ!
و صلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ محمد و علی آلہ و صحبہ أجمعین

بشکریہ: ماہنامہ بینات۔ جامعۃ العلوم الاسلامیۃ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن۔


متعلقہ خبریں