ترک وطنیت

ترک وطنیت

کا مران صدیقی

قومی آواز۔ سوشل راونڈاپ۔ نقل مکانی، ترک وطن،ہجر ت، یہ سب الفاظ اس عمل کی نمائندگی کرتے ہیں جس میں ایک فرد یا گروہ اپنا ملک یا جائے سکونت چھوڑ کر ایک نئی جگہ اور نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کرتا ہے۔ یہ نقل مکانی جبراً بھی ہو سکتی ہے جس میں ایک فرد یا گروہ جبراً، نہ چاہتے ہوئے اور اپنی مرضی کے خلاف اپنی زمین، اپنا وطن اور اپنا خاندان چھوڑ کر ایک نئی جگہ بسنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو طبعی طور پر اپنے وطن سے دور ہونے کے باوجود ذہنی اور جذباتی طور پر خود کو اپنے وطن سے دور نہیں کر پاتے اور اس آس میں زندگی گزارتے ہیں کہ کسی دن وہ اپنے وطن ضرور واپس جائیں گے۔

اس ذہنی وابستگی اور آس کی بنیاد پر وہ اپنے آپ کو اس نئے ملک یا نئے معاشرے میں شامل نہیں کر پاتے اور جتنا ممکن ہو اپنی اولاد کو بھی اس معاشرے سے دور رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ واپسی کی راہ میں پاؤں کی بیڑی نہ بن جائیں یا ان اقدار و رسومات کو نہ چھوڑ دیں جو انہیں اپنے اصلی وطن سے ایک ڈوری کی مانند باندھے ہوئے ہیں۔ ان جبراً نقل مکانی کرنے والے افراد کی یہ محتاط روش یا قدامت پسندی بجا تصور کی جا سکتی ہے کیونکہ یہ افراد اپنی مرضی کے خلاف ایک نئے معاشرے میں زندگی گزارنے پر مجبور کیے جاتے ہیں۔

کینیڈا یا امریکہ نقل مکانی کرنے والے افراد (پناہ گزینوں کو چھوڑ کر) اس زمرہ میں نہیں آتے ہیں۔ ہم یہاں اپنی مرضی سے آتے ہیں۔ ہمیں کسی نے یہاں آنے پر مجبور نہیں کیا۔ یہاں آنے کا فیصلہ ہم سب نے بہت سوچ سمجھ کر اور سارے عوامل کو پیش نظر رکھتے ہوئے لیا تھا۔ ہم کو اسکا بھی بخوبی علم تھا کہ یہاں کی تہذیب و ثقافت، رھن سہن، معاشرتی اقدار و معمولات وغیرہ پاکستان سے خاصے مختلف ہیں۔ ہمیں یہ بھی پتہ تھا کہ یہاں کی بیشتر آبادی عیسائیت کی پیروکار ہے اور یہاں مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک سے زیادہ نہیں ہے۔

لہذا ہم جانتے تھے کہ یہاں سکونت اختیار کرنے کی صورت میں ہم کو ان عیسائیوں اور سفید فام لوگوں سے میل جول رکھنا پڑے گا۔ ہم اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ ہمارے بچے اس ماحول میں پرورش پائیں گے جو اس سے کہیں مختلف ہے جس میں ہم نے پرورش پائی۔ ہم یہ بھی جانتے تھے کہ یہاں بچوں کے تحفظ اور پرورش کے اعتبار سے خاصے سخت قوانین نافذ العمل ہیں جو ان بیشتر تربیتی عوامل کا انسداد کرتے ہیں جو ہمارے روایتی معاشرے میں ماں باپ کے بنیادی حقوق تسلیم کیے جاتے ہیں۔

اس سب کے باوجود ہم نے یہاں آنے کا فیصلہ کیا۔ اپنا ملک، اپنے ماں باپ، بہن بھائی، اپنے جگری دوستوں، اپنے معاشرتی اطوار کو چھوڑ کر ایک اجنبی معاشرے میں بسنے کا فیصلہ کیا۔ ہم اپنے ملک کی صورتحال سے نالاں تھے۔ ہم اپنے ملک میں رائج ناانصافیوں، لاقانونیت، سیاسی کشمکش، بے ایمانی، رشوت ستانی، دھوکہ دہی، پیسے کی دوڑ، جھوٹ و دکھاوے کی دوڑ سے سخت بیزار تھے اور جس قدر جلدی ہو اس سے فرار چاہتے تھے۔ ہم جلد سے جلد ایک ایسی دنیا میں بس جانا چاہتے تھے جہاں ایمانداری، انصاف اور قانون کا بول بالا ہو۔ جہاں سکون ہو، سیاسی استحکام ہو۔ پاکستان اب ہمارے لئے پیارا وطن نہیں رہ گیا تھا۔ یہ ہمارے لئے وہ خطہ نہیں رہ گیا تھا جس پر ہم اپنی جان نثار کریں۔ ہم جلد از جلد اس خطہ زمین کو چھوڑ دینا چاہتے تھے۔ اس ملک کی کوئی خوبی اور اچھائی ہماری نظر میں اتنی بڑی نہیں تھی کہ وہ ہمارے پیروں کی بیڑی بن جائے۔ ہم بڑی بے قراری سے اور گن گن کر وہ دن گزار رہے تھے جب ہماری ایمیگریشن کی درخواست اپنے مراحل سے گزر رہی تھی۔

بالاخر وہ گھڑی آگئی جس کا ہمیں بے چینی سے انتظار تھا۔ ہم پاکستان چھوڑ کر کینیڈا یا امریکہ میں آ بسے۔ وہ خواب جو ہم بیتابی سے دیکھ رہے تھے بالاخر شرمندہ تعبیر ہو گیا۔ ہم کو اپنی زندگی ایک نئے سرے سے شروع کرنے کا موقع مل گیا۔ ایک ایسا موقع جس کے ذریعے ہم ان تمام منفی عوامل جن سے ہم بیزار تھے، چھٹکارہ حاصل کر کے ایک ایماندارانہ، پر امن اور مستحکم زندگی گزار سکیں۔ ہمیں ایک موقع ملا تھا کہ ہم اپنی مثبت توانائیاں ایک ایسے معاشرے کی ترقی اور استحکام میں صرف کریں جو ہمیں شخصی آزادی، دیانتدارانہ زندگی اور انسانیت کے فروغ کی مکمل ضمانت فراہم کرتا ہے۔

مگر یہاں آنے کے بعد بحیثیت مجموعی ہمارا عمل ان توقعات سے خاصا مختلف نکلا جن کے پس منظر میں ہم نے ترک وطنی کی تھی۔ وہ معاشرتی آداب و رسوم جن کو ہم پہلے خاطر میں نہیں لاتے تھے، اب یہاں آنے کے بعد زندگی کا لازمی حصہ بن گئے ہیں۔ وہاں بچوں کو انگریزی پڑھانا قابل فخر تھا۔ جب ہمارے ننھے بچے انگریزی میں باتیں کرتے تھے تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ ہم بچوں کی حوصلہ افزائی کر تے تھے کہ وہ روزمرہ کی باتیں انگریزی میں کریں۔

اردو یا علاقائی زبان میں بات کرنا ہمارے معاشرتی رتبہ کے شایہ نشان نہیں تھا۔ لیکن یہاں آنے کے بعد وہی انگریزی ایک سوتن کے روپ میں سامنے کھڑی ہو گئی ہے۔ وہی اردو جو وہاں کسی خاطر میں نہیں تھی اچانک ایک مبلغ کے پیغام کا سا روپ دھار لیتی ہے جس کا احیاء ایک بنیادی فرض کی شکل لے لیتا ہے۔ وہاں ہمارا اور بچوں کا مسجد سے تعلق نماز کی ادائیگی سے بڑھ کر نہیں تھا۔ بچوں کی کسی بھی قسم کی مذہبی سرگرمیوں میں شمولیت ہمیں گوارہ نہیں تھی۔ مگر یہاں آمد کے فوراً بعد ہمیں ہمارا مذہب خطرے میں نظر آنے لگ جاتا ہے اور جتنا ممکن ہو ہم خود کو اور اپنے بچوں کو مسجد سے منسلک کرنا چاہتے ہیں۔ وہاں مذہب کے نام پر کسی بھی قسم کے کاروبار سے ہمیں اسلام کی فکر نہیں ہوتی مگر یہاں ہر عمل کو ہم مذہبکے ترازو میں تولنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بیشتر حکومتی قواعد اور اقدامات میں ہمیں اسلام دشمنی کی بو محسوس ہوتی ہے اور ہم ان کے تمام مثبت پہلو نظر انداز کرنے لگتے ہیں۔

والدین اور بزرگوں کے قدامت پسندانہ خیالات جن سے ہم وہاں بیزار تھے اور ان سے آزادی چاہتے تھے، یہاں آنے کے بعد وہی خیالات ہم اپنے بچوں پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ملک جسے چھوڑنے کے لئے ہم بیقرار تھے اب وطن عزیز اور پیارا پاکستان بن جاتا ہے۔ ہم اپنے لئے یہاں ویسا ہی ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں جس سے بیزار ہو کر ہم یہاں آئے۔ ہم اپنے آپ کو اس نئے معاشرے سے جس قدر ممکن ہو دور رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم یہاں کے مقامی لوگوں سے میل ملاپ نہیں بڑھانا چاہتے ہیں۔ ہم یہاں کی ان مقامی رسومات کو بھی نہیں اپنانا چاہتے جو ہمارے مذہبی عقائد سے متصادم بھی نہیں۔ ہمیں جیو ٹی وی، اے آر وائی اور ھم ٹی وی کے ڈراموں کی پوری خبر ہوتی ہے مگر ہم مقامی دس ٹی وی سیریل کے نام نہیں بتا سکتے۔ ہم پاکستانی سیاست کے تجزیے بڑی پابندی سے پڑھتے اور دیکھتے ہیں اور ان پر گھنٹوں بحث کر سکتے ہیں مگر ہمیں یہاں کی مقامی سیاست اور سماجی اقدامات سے کوئی دلچسپی نہیں جن کا براہ راست اثر ہماری روزمرہ کی زندگی پر ہوتا ہے۔

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس ذہنی تبدیلی کے لئے تیار نہیں ہیں جو اس قسم کی نقل مکانی کا ایک بنیادی عنصر ہے۔ ہم نہ صرف خود کو نہیں بدلنا چاہتے بلکہ اپنی اولاد کی پرورش بھی وہاں کی ذہنی روش کے مطابق کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہماری اولاد کی ذہنیروش یہاں کے معاشرے سے ہم آھنگ ہے اور ہماری ایسی کوشش کا نتیجہ والدین اور اولاد کے درمیان کشمکش اور ناچاقی کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس نظریاتی تصادم میں یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ فتح اسی نظریے کی ہوتی ہے جو اس معاشرے میں رائج ہے۔ ہمیں تاریخ کا یہ اصول یاد رکھنا چاہئے کہ ترک وطن کرنے والے افراد خواہ کتنی ہی مضبوط ثقافت کے حامل کیوں نہ ہوں بالاخر ان کی اگلی نسلیں مقامی ثقافت کو مکمل طور پر اپنا لیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں کی سرکاری سرپرستی کے باوجود فارسی زبان ہندوستان کی زمین میں جڑ نہیں پکڑ پائی۔

اس مضمون کا اختتام میں اس بات سے کروں گا کہ ہم سب یہاں سب کچھ جانتے بوجھتے اپنی مرضی سے آئے ہیں۔ اب یہ ہمارا وطن ہے۔ ہمارا اور ہماری اولاد کا مستقبل اب اس ملک سے منسلک ہے۔ اس کی ترقی ہماری ترقی ہے۔ پاکستان ہمارا ماضی تھا کینیڈا یا امریکہ جہاں ہم رہتے ہیں، ہمارا حال ہے اور مستقبل ہے۔ اگر یہاں رہنا ہے تو ہمیں وہ فکری تبدیلی لازمی طور پر لانی ہو گی جو ہمیں اس معاشرے کا بنیادی رکن اور قابل فخر شہری بننے کے قابل بنائے۔

جو ہمیں اس قابل بنائے کہ ہم اس معاشرے کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر سکیں۔ ہمیں اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اس ذ ہنی تبدیلی کا مطلب ترک مذہب نہیں بلکہ اس معاشرے کی ان اعلیٰ اقدار کی پاسداری ہے جن کی وجہ سے ہم نے اپنا ملک چھوڑ کر یہاں سکونت اختیار کی ہے۔ وہ لوگ جو اس ذ ہنی تبدیلی کے لئے تیار نہیں اور اس معاشرے کی اقدار کو اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ان کے لئے مرزا غالب نے ڈیڑھ سو سال پہلے ہی فیصلہ سنا دیا تھا کہ

ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں