زمینیں سب آرمی کی ہیں۔۔۔

20/6/19

قومی آواز

تجزیہ و تحریر

جنرل ایوب نے بارڈر ایریا ریگولیشن قانون بنایا، جس کے تحت ملک کی پوری سرحد پر، بارڈرز پر 5 کلومیٹر کا علاقہ جی ایچ کیو کے حوالے کردیا گیا، جسے سینئر افسروں (جرنلوں) کو الاٹ کرنا تھا۔۔

50 ہزار ایکڑزرعی زمین سکھر بیراج کی فوجیوں کو دے دی گئی، اور ایک لاکھ ایکڑ کوٹری بیراج میں 1971 میں دے دی گئی،

چولستان اور تھل میں ایک لاکھ 48 ہزار ایکڑ زمیں فوجیوں کو دی گئی۔

لیکن پھر جب ڈی ایچ ایز شروع ہوئے۔۔۔۔۔ تو قیمتی کمرشل اور رہائشی علاقے۔۔۔۔۔ لاکھوں ایکڑون کے حساب سے ان کے ماتحت اونے پونے داموں لے لئے گے، یا ان پر قبضہ کرلیا گیا۔۔۔۔

جنرل مشرف نے ریلوے کی قیمتی زمین 70 پیسے فی مربع گز کے حساب سے لاہور میں گولف کلب بنانے کے لئے الاٹ کردی۔۔۔ یہ زمین صوبائی حکومت کی ملکیت تھی،

اسی طرح جنرل مشرف نے ایک ارب ڈالر کی کم قیمت پر پی تی سی ایل کی زمینوں کو اتصالات کمپنے کے ہاتھ بیچ دیا۔۔۔ (آج مشرف شان سے دبئی میں پیلس نما گھرون میں رہتا ہے، کک بیکس کے کرشمے)۔ وزارت دفاع نے زمینیں ہمیشہ غیر شفاف طریقے سے الاٹ مینٹیں کی۔۔۔

سینٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ ہم نے سینٹ میں متعدد بار سوال اٹھایا کہ جنرل راحیل کو ہزاروں ایکڑ زمین کس قانون کے تحت دی گئی ہے۔۔ پہلے تو سینٹ کی متعلقہ کمیٹی میں کبھی وازرت دفاع سے جواب ہی نہیں آتا تھا۔۔ جب بہت زور اور ریمائنڈرز بھیجتے۔۔ تو ایک سطری جواب آتا۔۔ ‘ قومی سلامتی کا سوال ہے’

کراچی حیدرآباد روڈ پر ۔۔ ڈی ایچ اے نے 12000 ایکڑ زمین انتہائی کم قیمت پر لی ہے۔۔۔ اور باقی پر قبضہ کرلیا ہے۔۔ غریب مکینوں کو اٹھا کر پھینک دیا گیا ہے۔۔

اسلام آباد میں بھی جی ایچ کیو کے لئے جو زمین الاٹ کی گئی ہے۔۔ وہ تو الگ بات ہے۔۔۔ جو اوپر ارد گرد پرانے لوگوں کی غریب بستیاں ہیں۔۔ ان کو سیکورٹی کے نام پر خالی کرنے کہہ دیا ہے۔۔ وہ بیچ بھی نہیں سکتے۔۔۔ ان کو کہا گیا ہے کہ علاقہ چھوڑ کر چلے جاو۔۔

ارشد محمود کی فیس بکی دیوار سے منقول


متعلقہ خبریں