مقصد حکومت گرانا نہیں مطالبات منوانا ہے۔۔۔عوامی راےعامہ

پیر , 28 مارچ , 2016

مقصد حکومت گرانا نہیں مطالبات منوانا ہے۔۔۔عوامی راےعامہ

قومی آواز ۔ وقاص رضا قادری کا تعلق ملتان سے ہے اور وہ ایک نعت خواں بھی ہیں لیکن جنوبی افریقہ کا اپنا نعت خوانی کا دورہ اس لیے منسوخ کیا کیونکہ انھیں سابق گونر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کے چالیسویں کے لیے بلایا گیا تھا۔

خیال رہے کہ ممتاز قادری کو 29 فروری کو پھانسی دی گئی تھی۔

وقاص کہتے ہیں ’میرا تعلق سنی تحریک سے نہیں ہے، میں صرف اپنے مسلک کے لیے آیا ہوں۔ تین روز سے سویا نہیں ہوں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے لیاقت باغ سے ڈی چوک کا سفر چھ گھنٹوں میں طے کیا۔

’پولیس کی جانب سے پہلی بار تشدد کا سامنا ہمیں راولپنڈی کے چاندنی چوک میں کرنا پڑا، جہاں انھوں نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔‘ ان کا دعوی ہے کہ پولیس نے ربڑ کی گولیوں کا بھی استعمال کیں۔

27 مارچ کو ممتاز قادری کے چہلم کے موقعے پر بڑی تعداد میں سنی تحریک اور دیگر حامی راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جمع ہوئے اور بعد میں راولپنڈی سے اسلام آباد کی جانب مارچ کرتے ہوئے تمام رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے ریڈ زون میں داخل ہوگئے تھے۔ راستے میں میٹرو بس کے ایک سٹیشن، ٹرک، پولیس کے جانب سے ان کو روکنے کے لیے لگائے گئے کنٹینرز اور فائر اینجن کی گاڑیوں کی بھی توڑ پھوڑ کی گئی اور آگ لگائی گئی۔ تاہم، مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ پر امن تھے، جب پولیس کی جانب سے مذاحمت کا سامنا ہوا تب ہی انھوں نے جوابی پتھراؤ کیا۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ وزیرِ اعظم نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانا نہیں چاہتے بس اپنے دس نکاتی مطالبات منوانا چاہتے ہیں
مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ وزیرِ اعظم نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانا نہیں چاہتے بس اپنے دس نکاتی مطالبات منوانا چاہتے ہیں
سنی تحریک سے تعلق رکھنے والے سکیورٹی اہلکار پرویز اختر بٹ لالا موسی سے آئے ہیں اور انھوں نے فخر سے بتایا کہ ’ہم مسلح نہیں ہیں اور سکیورٹی ہم نے ہی سنبھالی ہوئی ہے۔‘
مجمعے میں سنی تحریک کے کارکنوں نے ڈنڈے اور وکٹیں تھامی ہوئی ہیں اور لوگوں کی آمد و رفت پر سخت نظر رکھی ہوئی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ چھ سو فوجی اہلکار اہم سرکاری عمارتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے تعینات ہیں۔ ڈی چوک پر فوجی اہلکار موجود ہیں اور پولیس ارد گرد کھڑی ہے۔
27 مارچ کی رات تک مقامی انتظامیہ کے مطابق، دس ہزار افراد ریڈ زون میں داخل ہونے میں کامیاب رہے۔ ریڈ زون میں پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کی اہم عمارتیں موجود ہیں۔ تاہم، صبح تک ان کی تعداد دو سے ڈھائی ہزار تک رہ گئی۔
پارلیمنٹ کے سامنے ایک ٹرک کھڑا کیا ہوا ہے جس پر سٹیج سجا ہے اور ممتاز قادری کے حامی سنی تحریک کے قائدین تقاریر کر رہے ہیں۔ زیادہ مجمع اس عارضی سٹیج کے سامنے بیٹھا ہے، تاہم درجنوں پارلیمنٹ اور ڈی چوک کے آس پاس آرام کر رہے ہیں۔دو مقامات پر اردو میں گو نواز گو بھی بڑے بڑے حروف میں لکھا ہوا ہے۔ تاہم، مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ وزیرِ اعظم نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانا نہیں چاہتے، اپنے دس نکاتی مطالبات منوانا چاہتے ہیں۔
وقاص رضا قادری کا کہنا ہے کہ ان کے مطالبات غیر سیاسی ہیں۔ ’ہم چاہتے ہیں شریعت کا نفاذ ہو، قانونِ ناموسِ رسالت میں ترمیم نہ کی جائے، جو اس قانون کے تحت جیل میں ہیں انہیں پھانسی فوراً دی جائے، محفلِ نعت خوانی کو سپیکر پر نشر کرنے پر پابندی ہٹائی جائے، ٹی وی پر فحش پروگرام بند ہوں۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے آخر۔‘
سنی تحریک نے اپنے مطالبات حکومت کو پیش تو کردیے ہیں، جن میں ’ممتاز قادری کو سرکاری طور پر شہید قرار دیا جانا اور آسیہ بی بی کو فوراً پھانسی دلاوانا‘ شامل ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سے ہی بات ہو، مگر سنی تحریک کے سینیئر رہنما ڈاکٹر اشرف آصف جلالی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ فوج کی ضمانت کے بغیر بات نہیں ہو گی۔
’فوج کی نگرانی میں، ان کی گارنٹی کے ساتھ ہم سول حکومت سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘

سنی تحریک کے سینیئر رہنما ڈاکٹر اشرف آصف جلالی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ فوج کی ضمانت کے بغیر بات نہیں ہو گی
سنی تحریک کے سینیئر رہنما ڈاکٹر اشرف آصف جلالی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ فوج کی ضمانت کے بغیر بات نہیں ہو گی
سنی تحریک کے سکیورٹی اہلکار پرویز اختر بٹ کا دعوی ہے کہ اس دھرنے کی تیاری 25 روز سے کی جا رہی ہے کیونکہ حکومت ان کے مطالبات نہیں مان رہی تھی۔ ڈی چوک میں سٹیج تو ہے لیکن مظاہرین کا کہنا ہے کہ کھانے پینے کے ٹرکوں کو روکا گیا ہے اور ہزاروں کارکنوں کو گرفتار بھی کیا ہے۔

27 اور 28 مارچ کی درمیانی شب سے اسلام آباد کے ریڈ زون اور آس پاس کے علاقوں میں موبائل فون کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ وقاص رضا قادری نے سٹیج کے منتظم کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر براہِ راست دھرنے کی نشریات کر رہے ہیں۔ ’جب موبائل سگنل بند ہوئے، تو ہم نے انٹرنیٹ کے دیگر آلات استعمال کیے۔ میڈیا پر ہمارا موقف سامنے نہیں آرہا ہے کیونکہ حکومت نہیں چاہتی کہ ہمارے لوگ قائدین کو دیکھ کر یہاں بڑی تعداد میں آئیں۔‘

مظاہرین تو کہہ رہے ہیں کہ وہ تب تک بیٹھے رہیں گے جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہوتے۔ تاہم حکومت اور سکیورٹی اہلکاروں سے شہریوں کی جانب سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ آخر اسلام آباد کو ایک بار پھر یرغمال کیوں بننے دیا ہے، حکومتی رٹ کب قائم کی جائے گی
۔۔۔