میرا ووٹ کس کے لیے اور کیوں؟ کراچی کے شہری آج کل سیاسی یتیمی کا شکار ہیں۔

قومی آواز کراچی: ۔
Thursday June 7
عام انتخابات 2018 کے لیے 25 جولائی کی تاریخ مقرر کی گئی ہے—۔فائل فوٹو/اے ایف پی
25 جولائی کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی کراچی میں بھی الیکشن کی گہماگہمی محسوس کی جانے لگی ہے، لیکن انتخابات کا اصل موسم تو عید کے بعد ہی چھائے گا۔

پاکستان کی 71 سالہ سیاسی تاریخ کا یہ دوسرا موقع ہے جب جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی ہے۔ جمہوریت کا فروغ یقیناً خوش آئند عمل ہے۔

اب بس کچھ ہی دنوں میں ہر طرف ووٹ کی صدائیں بلند شروع ہوجائیں گی اور بھانت بھانت کے سیاستدان اپنے اپنے وعدوں وعیدوں سے ووٹرز کو گھیرتے نظر آئیں گے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ میرا ووٹ کس کے لیے ہوگا اور کیوں؟

تو جناب بتاتی چلوں کہ میں کراچی کے حلقہ این اے 247 کی ووٹر ہوں اور ووٹ کے تقدس اور اہمیت سے واقف ہوں، لہذا میں اپنا قیمتی ووٹ بہت سوچ سمجھ کر دوں گی۔

حالیہ دنوں میں کراچی کے سیاسی تناظر میں کئی شخصی خاکے اور سیاسی بت زمین بوس ہوچکے ہیں۔ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی ہانڈی جس طرح بیچ چوراہے میں پھوٹی ہے، اس سے کراچی کا ووٹر شش وپنج میں مبتلا ہے۔ اس صورت حال میں پاک سرزمین پارٹی اور جماعت اسلامی اردو اسپیکنگ ووٹرز کو اپنی طرف کھینچ سکتی ہے۔
یہ خبریں آپ قومی آواز ٹورنٹو پر پڑھ رہے ہیں

ایم کیو ایم لندن کی جانب سے الیکشن بائیکاٹ کا فائدہ ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی اٹھا سکتی ہیں، جو اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ لیکن اس خلاء کا فائدہ اٹھانے کے لیے دیگر سیاسی جماعتیں بھی اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔

یہی وجہ کہ ایم کیو ایم کے گڑھ سمجھے جانے والے حلقے لیاقت آباد ٹاؤن میں پی ٹی آئی اور پی پی پی نے بھی گزشتہ دنوں ‘ٹنکی گراونڈ’ کا میدان مارا اور عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ بھی تبدیلی کے مظہر ہیں۔

ہوسکتا ہے، اس بار پی پی پی کا ووٹ بینک لیاری، ملیر اور گڈاپ سے نکل کر کراچی کے دیگر حلقوں تک پھیل جائے، لیکن ایک بات تو بتائیں بلاول صاحب! میں آپ کو اپنا ووٹ کیوں دوں؟ آپ کے اسمبلی ارکان نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ عوامی رابطہ مہم چلائی تھی اور آپ نے 29 اپریل کو اہلیان لیاقت آباد کے سامنے ‘بدلتا کراچی’ کا نعرہ بھی لگا دیا تھا، لیکن کسی کو بھی بے ہنگم ٹریفک اور بکرا پیڑی پر کئی کئی فٹ گہرے قدیم گڑھے نظر نہ آئے، جن پر گزرتے ہوئے لوگوں کی چولیں تک ہل جاتیں ہیں۔

بلاول صاحب! ہم اہل حلقہ این اے 247، آپ کو یہاں آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ بھی انہی پتھروں پر چل کر آئیں اور دیکھیں، سبک رفتار گاڑی میں بھونچال نہ آجائے تو کہیے گا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر کوئی سیاسی سمجھ بوجھ والا لیڈر آپ کے آنے کی خوشی میں ہی اس سڑک پر استر کاری کرا دیتا۔

کیا کبھی بجلی اور پانی جیسے بنیادی مسائل پر آپ کی سرکار نے کوئی ٹھوس موقف اپنایا؟ نعرے اور سیاسی وعدے تو بہت ہو چکے، یہ بتائیں کہ آپ ہمارے بنیادی مسائل کی طرف کب نظر کرم کریں گے؟

کہا جا رہا ہے کہ اس الیکشن میں پی ایس پی کو اچھا ٹرن آؤٹ ملے گا، وجہ بالکل سادہ سی ہے یعنی ٹوٹی پھوٹی ایم کیو ایم اور لندن کی جانب سے بائیکاٹ، اس لیے اگر مصطفیٰ کمال کی پارٹی بہتر سیاسی حکمت عملیاں اپناتی ہے تو یقیناً عوام ان پر اعتماد کر سکتے ہیں، یہ ان کا پہلا الیکشن ہے اور کھلا میدان ان کا انتظار کر رہا ہے۔

رہی بات جماعت اسلامی یا متحدہ مجلس عمل کی، تو ان کو بھی سیاسی پیش رفت اور سیاسی حکمت کا ثبوت دینا ہوگا۔ پہلے بھی بائیکاٹ کا فائدہ ان کو ہی ملا تھا، لوگ اب پرانے اور آزمائے ہوؤں سے نکل کر نئے کھلاڑیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کریں ۔

2013 کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے ایم کیو ایم کے امیدواروں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اُس وقت خان صاحب کو عوام نے تبدیلی کا مظہر سمجھا تھا لیکن کچھ غلط فیصلوں نے عوام کو مایوس کردیا۔ اگر خان صاحب چاہتے ہیں کہ کراچی میں انہیں خوش آمدید کہا جائے تو انہیں ٹھوس سیاسی اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔ مڈبھیڑ اور دھینگا مشتی چھوڑ کر حوصلے اور ہمت سے اپنے مخالفین کا سامنا کریں، یقین رکھیں عوام تبدیلی چاہتے ہیں لیکن صرف حقیقی تبدیلی۔

اب آخر میں، یہ سوال کہ میں ایم کیو ایم کو اپنا ووٹ کیوں دوں؟

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی 5 سالہ شاندار کارکردگی سے ‘عوام کی آنکھیں ٹھنڈی’ رکھی ہیں، چاہے وہ کوڑے کے ڈھیر سے بنے ‘پہاڑی ٹیلے’ کا عملی مظاہرہ ہو یا پھر فیملی پارکوں میں میلے ٹھیلوں سے چلنے والا کاروبار۔ جس محنت اور استقامت سے ناظم آباد میں واقع ذیشان حیدر فیملی پارک اور مجاہد پارک کو ٹھکانے لگایا گیا ہے وہ داد طلب ہے۔ یہ پارک جہاں کبھی اہل محلہ کا رش رہتا تھا اب اپنی کشش کھو چکے ہیں۔ آج ایک پارک جھاڑ جھنکار کا عملی نمونہ ہے تو دوسرا گرین لائن پروجیکٹ کی نذر ہوگیا۔ مجاہد پارک کے سامنے آدھی گلی پر محیط کچرے کے اونچے نیچے ٹیلوں سے پوری فضا ‘معطر’ رہتی ہے۔ کئی سالوں سے ٹیلوں کا سائز کم زیادہ ضرور ہوتا ہے لیکن ختم نہیں ہوا۔

ایک مشکل اور بھی ہے، اِدھر چند بوندیں پانی ٹپکا نہیں اور اُدھر گلیاں،گٹر اور برساتی نالے بھر گئے۔ ہر سال ایک ہی اسکرپٹ چلتا ہے۔ بارش ہوئی، پانی چڑھا اور نالے بھر گئے۔ ایم کیو ایم کی حکومت نے اتنے سالوں میں ان برساتی نالوں کے لیے کوئی باقاعدہ حل تلاش کیوں نہ کیا۔ چمن سنیما سے لے قاسم آباد تک ان برساتی نالوں میں سوائے کچرے اور صنعتی فضلے کے اور ہے ہی کیا؟

این اے 247 کا حلقہ پڑھے لکھے اور متوسط طبقے پر مشتمل گنجان آبادی والا علاقہ ہے۔ اس حلقے میں سرکاری اسکول و کالج اچھے ہیں۔ ہم خود ان ہی تعلیمی اداروں کی پیداوار ہیں، لیکن کھیل کے میدانوں کو بھی کبھی کینٹین اور کبھی نئے بلاکس اور لیب کے نام پر ختم کردیا گیا۔ سرسید کالج ہو یا پھر اپوا گرلز اسکول و کالج، اب یہاں کھیل کے میدان نہیں ہیں۔

علاقے میں ایک سرکاری اسکول کے کھیل کے میدان کو جب شاندار پودوں کی نرسری میں بدلتے دیکھا تو بہت افسوس ہوا۔ اسے کسی کی تو پشت پناہی حاصل ہے؟ اگر اسکول کے طلبہ و طالبات سے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے یہ پروجیکٹ شروع کیا جاتا تو سمجھ میں بھی آتا، لیکن جس طرح نرسری میں ہزاروں پودے اور درخت اپنی بہار دکھا کر اپنے مالک کو سرمایہ بہم پہنچا رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔

کراچی کے شہری آج کل سیاسی یتیمی کا شکار ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کے بعد شہر کراچی کو پرانے مائی باپ ملتے ہیں یا کوئی نیا سیٹ اپ سامنے آتا ہے۔ ہم بھی سیاسی دھار دیکھ رہے ہیں، جو ہمارے بنیادی مسائل پر ٹھوس اقدام کے ساتھ بات کرے گا، ہمارا ووٹ بھی اسی کا ہوگا۔


متعلقہ خبریں