میرے خیال میں ۔۔۔۔۔

اداریہ

میرے خیال میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آزاد شاہ
قومی آواز: ہم اپنے معاشرے میں اکثر مریضانہ ذہنیت کا مشاہدہ مختلف موقعوں پرلوگوں کے رویوں سے کرتے ہیں۔
ہمارے اردگرد ایک طرف تو رجعت پسند قسم کے لوگ پاۓ جاتے ہیں جو اس مسلے کو مسلہ ہی نہیں سمجھتے بلکہ اس قسم کے رویوں کو عین سماجی اقدار کے مطابق سمجھتے ہیں۔ عزت، شرافت، غیرت، شرم و حیا کے معیارات کے ذریعے یہ لوگ ہر وقت سماجی ارتقاء کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے نظر آتے ہیں۔
جبکہ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اس مسلے کی سنجیدگی کو سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف وقتا” فوقتا” مزاحمت کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر یہ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے کہ یہاں پر کچھ لبرل لوگ بھی مختلف مواقع پر اپنی ذاتی زندگی میں اس طرح کی رویوں کا شکار نظر آتے ہیں جسطرح رجعت پسند لوگ ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ لوگ لبرل ازم کو یا تو صحیح طور پر سمجھ نہیں پاۓ ہوتے یا سماجی دباؤ کی وجہ سے مجبور ہوتے ہیں۔ کم ہی لوگ ایسے ہیں جو لبرل ازم کواس کے اصل روح کے ساتھ سمجھتے ہیں اور اپنی زندگی بھی عملی طور پر اس کے مطابق گزارتے ہیں۔
اگر چہ انسانی رویوں کے مختلف عناصر ہیں مگر یہاں پر میں مذہبی اور ثقافتی عنصر پر بات کروں گا اس لۓ کہ میرے خیال میں دوسرے عناصر اسی کی وجہ سے وجود رکھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کلچر کی تشکیل اگر اس طرح ہو کہ یہ انسانی فطرت، جبلت اور جسماجی مادی وغیر مادی ضروریات سے ہم آہنگ ہو تو پھر لوگوں کے رويۓ منافقانہ اور مریضانہ نہیں ہوںگے بلکہ لوگوں کو اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے مواقع میسر ہوں گے، لوگ اپنے جذبوں کی تسکین کے لۓ جھوٹ اور فراڈ کا سہارا نہیں لیں گے،لوگ اپنی ذات کے اظہار کے مواقع پا کر سکون و اطمینان کا سانس لیں گے۔
ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ خواتین جب کہیں سے گزرتی ہیں تو لوگ اس کو کس طرح دیکھتے ہیں اور ان کے تبصرے کس قسم کے ہوتے ہیں، یہ رويۓ یقینا” نارمل نہیں، مگر میرے خیال میں اس قسم کے رویوں کو اخلاقی بنیادوں پر رد کرنے کی بجاۓ ایک حقیقت پسندانہ تجزيۓ کے ذریعے جانچنا چاہيۓ۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ ایسا اس لۓ کرتے ہیں کہ وہ لوگ جو چاہتے ہیں جس چیز کی ضرورت محسوس کرتے ہیں وہ ضرورت پورا کرنے کے لۓ ماحول سازگار نہیں پاتے۔ خواتین کے قرب اور لڑکیوں سے دوستی کی ضرورت محسوس کرنا کوئی غیر فطری بات نہیں اور نہ ہی یہ قابل ملامت فعل ہے۔ مگر چونکہ کلچر نے اسے ناپسندیدہ اور قابل ملامت فعل بنا کر اس پر پابندیاں لگائی ہیں اس لۓ مرد اپنی فطری جبلت/ضرورت پورا کرنے سے محروم رہتے ہیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی محرومیوں نے فرسٹریشن کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے اس قسم کے رویوں کا اظہار ہوتا ہے جو بیمارانہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
میرے خیال میں ایک ایسا نظام ایک صحت مند معاشرے کی ضمانت دے سکتا ہے جس میں لوگ معاشی، سیاسی اور سماجی مجبوریوں سے آزاد ہوں۔


متعلقہ خبریں