کلبھوشن یادیو کا معاملہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہے:اسے ایران سے نہ جوڑا جائے:چودھری نثار

قومی آواز ۔
اسلام آباد(اے این این) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ بلوچستان سے گرفتارہونے والے ’’را‘‘ کے جاسوس کلبھوشن یادیو کا معاملہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہے، اسے ایران سے نہ جوڑا جائے،برادرہمسایہ ملک پاکستان کیخلاف کسی سرگرمی میں ملوث نہیں ، ایرانی صدر سے متعلق میڈیا پر آنے والی تنقید پر تشویش ہے، ایرانی سفیر سے دہشت گردی سے متعلق تفصیلی بات ہوئی لیکن ملاقات سے متعلق پریس ریلیز سے ہٹ کر باتیں کی گئیں،جاسوس کا معاملہ منطقی انجام تک پہنچائیں گے ، مشرف کے معاملے میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کے پاس ایان علی کیلئے وکلا ہیں مگرمشرف کے کیس کیلئے نہیں ؟ ، اعتزاز احسن ہی غداری کیس میں اپنی خدمات پیش کردیتے تو حکومت انہیں معاوضہ دیتی ، سابق صدر کے معاملے پر ایک یا دو روز میں حقائق عوام کے سامنے لا ؤ ں گا ،ڈی چوک میں دھرنے والوں نے پنجاب حکومت سے اسلام آباد نہ جانے کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ، قانون توڑنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا ، ایک ایک شخص کو گرفتار کریں گے ۔ہفتہ کویہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ ایرانی صدر حسن روحانی کا حالیہ دورہ پاکستان بہت مثبت رہا ہے ، اس دورے کے بعد بھارتی جاسوس کی گرفتاری کے حوالے سے جو معاملات پیدا ہوئے اور میڈیا پر جس قسم کے معاملات آئے ہیں اس پر ایرانی سفیر سخت پریشان تھے اور وہ گزشتہ دو روز سے مجھ سے ملنا چاہتے تھے ، جمعہ کی شام کو میری ان سے تفصیلی ملاقات ہوئی ہے اس ملاقات کے بعد ایک سرکاری پریس ریلیز جاری کی گئی اور میڈیا کے کچھ دوستوں نے اس سے بھی ہٹ کر باتیں کی ہیں اور ایسی باتوں کا ذکر کیا گیا جو ملاقات میں سرے سے زیر غور آئی ہی نہیں تھیں ، ایرانی سفیر کو زیادہ تشویش اس بات پر تھی کہ ایک طرف صدر حسن روحانی کا اچھا دورہ ہوا لیکن دوسری طرف پاکستانی میڈیا کے کچھ حصے میں ایران کے بارے میں تضحیک آمیز باتیں ہوتی رہیں اور ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان اور ایران برادر دوست ملک نہیں ایک دوسرے کے دشمن ہیں ، ایرانی سفیر نے پاکستانی میڈیا میں اپنے راہبر اعلیٰ کے بارے میں بنائے گئے کارٹونوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا ۔ انہوں نے کہاکہ میں نے ایرانی سفیر کو آگاہ کیا ہے کہ سعودی عرب اورایران کے درمیان کشیدگی کے دوران آرمی چیف نے وزیراعظم کو تجویز دی تھی کہ ہم ثالثی کا کردار اداکریں ، حکومت کا بھی موقف تھا کہ ہمیں ایران کے ساتھ تعلقات کو بلند ترین سطح پر لے جانا چاہیے ، پاکستان کے عوام اپنے ایرانی بھائیوں سے محبت کرتے ہیں ۔میری میڈیا سے بھی درخواست ہے کہ وہ اپنی قلم اور آواز کو قومی مفاد میں تھوڑا نرم رکھے ۔انہوں نے کہاکہ ہم بھارتی جاسوس کا معاملہ منطقی انجام تک پہنچائیں گے ، یہ مسئلہ بھارت اور ’’را‘‘ سے ہے ، ایران سے نہیں اور ایران کے صدر نے بھی کہہ دیا ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی ایران کی سکیورٹی ہے ۔انہوں نے کہاکہ میں اس بات کی بھی وضاحت کردوں کہ گزشتہ روز میری اور وزیراعلی پنجاب میاں شہبازشریف کی آرمی چیف سے ملاقات ہوئی ہے جسے میڈیا کے ایک حصے نے خفیہ ملاقات قرار دیا ہے ، وفاقی وزیرداخلہ اور وزیراعلیٰ پنجاب کو آرمی چیف سے خفیہ ملاقات کرنے کی ضرورت نہیں ، ہم کئی دفعہ دوستانہ ماحول میں ملتے ہیں ۔چوہدری نثار علی خان نے پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے سے متعلق میڈیا پر آنیوالی خبروں پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں سچ بولنا نہ ممکن ہے ، دوسروں کے مفادات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور ہر کوئی ہر چیز کو اپنی سوچ پہنانے پر بضد رہتا ہے ، بعض نام نہاد تجزیہ کاربھی اب پیشہ ور تجزیہ کار بن گئے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ہم سے پہلے پانچ سال تک پیپلزپارٹی کی حکومت اقتدار میں رہی ، اس وقت پرویز مشرف پر غداری ہی نہیں بے نظیر بھٹو کے قتل کا بھی کیس تھا ،2011ء میں ایف آئی آر بھی درج ہو چکی تھی لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت نے مقدمے کے باوجود سابق صدرکا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا ، اکبر بگٹی قتل کیس میں بھی ان کا ای سی ایل میں نہیں ڈالا گیا ۔یہ لوگ پانچ سال تک سوتے رہے اورآج ہم پر الزام ڈالا جارہا ہے اور جو تجزیہ کار تب خاموش تھے اب وہ بھی بول پڑے ہیں ، میں نے اس وقت قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر بطور قائد حزب اختلاف پیپلزپارٹی کی حکومت کو کہا تھا کہ وہ قدم اٹھائے پوری اپوزیشن اس کے ساتھ ہو گی اور اگر پیپلزپارٹی کچھ نہیں کررہی تو ہم آگے بڑھیں گے لیکن اس کا ابھی تک جواب نہیں ملا۔ہم نے اقتدار میں آکر سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کیس کو آگے بڑھایا ، پبلک پراسیکیوٹرز مقرر کیا ، خصوصی عدالت بنائی اور پانچ ماہ کے مختصر عرصے میں پراسیکیوشن مکمل کرائی کیس جب حتمی مرحلے میں داخل ہوا تو خصوصی عدالت نے سابق صدر کی درخواست پر اس وقت کے وزیراعظم ، وزیر قانون اور نام نہاد چیف جسٹس کو بھی شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد یہ لوگ سپریم کورٹ میں چلے گئے اور عدالت سے سٹے لے لیا ، اس سارے معاملات میں حکومت کی غیر سنجیدگی کہاں سے نظر آتی ہے ؟چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ ممتاز قادری کے چہلم کے بعد دھرنے کے دوران انتظامی ناکامی کی تحقیقات کی جارہی ہیں ہزاروں کے ہجوم کوروکنا ممکن نہیں تھا ، انہوں نے کہاکہ میں نے وزیراعظم سے کہا تھا کہ دھرنا کم سے کم تشدد میں ختم کرینگے اور ہم نے آپریشن کا فیصلہ بھی کرلیا تھا ،انہوں نے کہاکہ دھرنے والوں نے ممتاز قادری کے چہلم کے مذہبی اجتماع کا غلط استعمال کیا ، پنجاب کی انتظامیہ سے جو تحریری معاہدہ کیا گیا اس کی خلاف ورزی کی ، چہلم کی دعائیہ تقریب شام پانچ بجے تھی اور چند لوگ غریبوں لوگوں کو استعمال کرتے ہوئے ڈیڑھ بجے ہی یلغار کے لئے چل پڑے ،پھر اس کے بعد ممتازقادری انہیں بھول ہی گیا تھا آج جس تحریر کو دکھایا جارہا ہے اس میں بھی ممتاز قادری کے حوالے سے ایک لفظ بھی شامل نہیں ۔ انہوں نے کہاکہ یہ بات غلط ہے کہ دھرنے والوں کے معاملے پر وفاقی وزراء ایک پیج پر نہیں تھے ، اسحاق ڈار اور خواجہ سعد رفیق سے ہر قسم پر مشاورت کی گئی اور سب کچھ مشاورت سے ہوا ۔انہوں نے کہاکہ ہم نے ڈی چوک کی تشکیل نو کا فیصلہ کیا ہے آئندہ کسی کو یہاں بیٹھنے نہیں دینگے۔