کم عمر بچے بچیوں کے اغوا کا بڑھتا ھوا رجحان

کم عمر بچے بچیوں کے اغوا کا بڑھتا ھوا  رجحان
تحریر:زوہیر عباس
قومی آواز :جاتی سردیوں کے دنوں میں جب بہار کی آمد آمد ہوتی ہے ، پھول کھلنا شروع ہوتے ہیں۔ پتیوں پہ اوس پڑتی ہے مٹی بھی دھول نہیں اڑاتی ، تتلیاں تھرک تھرک ، پرندوں کے سریلے نغموں پہ رقص کرتی ہیں۔
بالکل ایسا ہی منظر ہوتا ہے جب چھوٹے چھوٹے بچے اپنے پریشانیوں اور فکروں میں گھرے ماں باپ کے چھوٹے چھوٹے آنگنوں میں دوڑتے بھاگتے کوئی معصوم شرارت کرتے ہیں کوئی قلقاری بھرتے ہیں۔
ان ماں باپ کی تلخ و ترش زندگیاں ، جہاں قدم قدم اس معاشرے میں ان کا استحصال ہوتا ہے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اگر اولاد کی اس نعمت سے محروم ہوں تو ان کا جینا محال ہو جائے۔
یوں ہی کسی شام کسی ایسے ہی گھر کا کوئی ایسا ہی لاڈلہ ، کوئی لعل ، آنکھ کا تارا ، راج دلارا نہ لوٹے۔ ماں بدحواس گائے کی طرح محلے میں دوڑے اور لوگوں سے پوچھے ، بوڑھی دادی دیگر بچوں سے پوچھتی لاٹھی ٹیکتی ہر گھر میں جھانک رہی ہو ، دادا جس مسجد کا مقتدی ہو وہاں اعلان کروانے جائے۔ تھکا ماندہ کام سے لوٹا باپ سائیکل گلی میں چھوڑ کر بڑی سڑک کی جانب ڈھونڈنے کو دوڑے۔
کیا کوئی اس کیفیت کا اندازہ کر سکتا ہے ؟ کیا الفاظ سے ان کی تسلی و تشفی ممکن ہے ؟
رات کس کیفیت میں کٹی ہو گی اس کا اندازہ لگانا ممکن ہے ؟ اور پھر صبح دم جب شور اٹھے لوگ بھاگیں اور ماں کو اوڑھنی کا ہوش رہے نہ باپ کو چپل پہننے کا دھیان ، کسی غیر آباد جگہ سے کسی کھنڈر ، کسی حویلی کے پچھواڑے سے ایک ننھی لاش ملے۔
کیا کوئی تصور کر سکتا ہے؟ کیا ہوا ہو گا ؟
ہاں ہم سب تصور کر سکتے ہیں۔
پر کیوں کر سکتے ہیں ہم تصور کہ کیا ہوا ہو گا ؟؟

تصور کرنا ہی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے لیکن یہ تصور تو کسی اور کے مطلق ہے چلو خیر ہے کسی اور کا بچہ تھا – لیکن کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہےکہ آپکے اپنے بچے بچیاں یوں ہی کسی بھیڑ ے کے ہاتھ لگ جائے – اب تصور کرنا ہی اپ کو ایک عذاب میں مبتلا کر دے گا –
لہذاکل کے پچھتاوے سے بہتر آج کی معمولی سی سختی ہے
ابھی وقت ھاتھ سے نہں نکلا اپنے بچوں کی حفاطت آپکا اولین فرض ہے ۔ اور یہ ہی قومی آواز ہے

فیاض ملک کے مضمون ‏مسلےہوئےپھول‬ سے ماخوذ