ہاے یہ بیویاں ۔۔۔۔

ہاے یہ بیویاں ۔۔۔۔
ذوھیر عباس
قومی آواز ۔ گھر بچے باورچی خانہ یہ تکون آج کی عورت کو کہیں دیکھنے نہیں دیتااور اگر عورت ملازمت پیشہ بھی ہو تو تکون گھر اور بچے باورچی خانے کے چوکور میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ٹینشن ہی ٹینشن ۔یہاں تک کہ ہنسنے کو بھی وقت نہیں ملتا۔آج اچانک خیال آیا کہ اس گھٹن دور میں رہ کر اپنے اوپر ٹھوڑا ہنس لیا جائے تو کوئی مضا ئقہ نہیں۔اس کیلئے وسعت دل کی ضرورت ہوتی ہے۔عموماخواتین کی اس محفل میں مرد خضرات کم ہی آتے ہیں۔اس لیے ججھکنے اور شرمانے کی بھی ضرورت نہیں۔عورت کے بہت سے روپ مثلا ماں ،بہن ،بیٹی ،بیوی وغیرہ تواپکو معلوم ہی ہیں ۔کیوں نہ آج ایسا آئینہ دیکھا جائے جس میں بیوی کے طرح طرح کے روپ نظر آئیں۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر ہم یہ دیکھتے بھی رہتے ہیں/ ہوں گے بلکہ بعض تو نوان ون بھی ہوتی ہوں گی۔عقب میں ان کے سردار بھی نظر آئیں گے ۔ صرف اس وقت ان کو پھچاننے کی ضرورت ہے۔ مقصد کسی کی تحقیر یا تضحیک نہیں صرف تھوری سی مسکراہٹ ہے۔ لیکن یہ ضرور خیال رہے کہ یہ ایک آئینہ ہے اس کیلئے آپ کی شبیہ کسی وقت بھی نظر آسکتی ہے۔
ملکہ بیوی
ان کی تو جناب کیا بات ہے۔ یہ بات نہیں کرتیں بلکہ حکم دیتی ہیں اکثر کو تو حکم دینے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ۔آنکھ کا اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اور حکم کے غلام ایک غلامانہ سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے گاڑی کا دروازہ کھولتے نظر آتے ہیں اور بعض تو رومال سے سیٹ صاف کرتے ہیں۔ اگر پانی بھی پینا ہو تو بیوی کی اجازت کا انتظار کر تے ہیں۔اور عقیدت حد سے بڑھ جائے تو گلے میں رسی باندھ کر دوسرا سرا بیوی کو پکڑا دیتے ہیں ۔اور ساری عمر آرام و چین سے گزارتے ہیں۔
بقراط بیوی
بڑی عالم فاضلہ ہو تی ہے۔ان کی ساری زندگی کتابوں میں گزرتی ہے۔ پانچ دس کلوسے کم کی  کتابیں نہیں پڑھتیں ۔ شوھروں کیساتھ گزارا مشکل ہوتا ہے۔اکثرتو ان کے علم وفضل کی تاب نہ لا کر پتلی گلی سے نکل لیتے ہیں جو مرد مجا ہد ھوتے ہیں ساری عمر ان کے علم کی مار کھا کھا کر ادھ موئے ہو جاتے ہیں ۔ اکثر تو مہمان کو چائے پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
ٹارزن بیوی
رحیم شحیم ،لمبی چوڑی موٹر سائیکل پر ساتھ بیٹھ جائے تو اگلا پہنہ ہوا میں اٹھ جاتا ہے۔ شوہر زیادہ تر منحنی کمزور ناک پکڑو تو دم غائب ٹائپ ہوتے ہیں۔ بیوی کیساتھ چلتے ہوئےشرماتے ہیں۔ خوب پھیل پھیل کر چلتے ہیں۔ پھر بھی بمشکل نظر آتے ہیں۔ چھپکلی یا لال بیگ مارنے کیلئے زور دار چیخ کے ساتھ بیوی کو بلاتے ہیں ،جو جھاڑو کے ایک وار میں دشمن کا خاتمہ کرنے کے بعد خونخوار نظروں سے دیکھتی ہوئی واپس جاتی ہے ۔
فیشن ایبل بیوی
ایک ہاتھ میں موبائل اور دوسرے ہاتھ میں منرل واٹرکی بوتل کے ساتھ با آسانی پہچانی جا سکتی ہے۔ لباس ایسا ہوتا ہے کہ خواتین استغفار پڑھ کر منہ پھیر لیتی ہیں اور مرد ایک بار نظر ڈالنے کے بعد ہٹاتے ہی نہیں تاکہ دوسری نگاہ ڈالنے کے گناہ سے بچ سکیں۔ ان کے شوہر اپنی شرم و غیرت بیچ کر زیادہ تر اپنی آنکھیں بند رکھتے ہیں
بچہ بیوی
یہ اپنے شوہر کی نصف عمر ہونے کے ساتھ ساتھ قد میں بھی نصف ہوتی ہے۔ ان کے شوہر کو ڈھلتی جوانی میں شادی کا خیال آتا ہے ۔ اس لیے ساری عمر بھولی بھالی نادان کم سن بن کر آرام سے زندگی گزارتی ہیں۔ غلطیوں پر معافی مانگنے کی کافی گنجائش ہوتی ہے ۔ شوہروں سے بڑے لاڈ بھر ے لہجے میں بات کرتی ہیں۔ اور پدرانہ شفقت سے جواب پاتی ہیں ۔
اپسرا بیوی
بڑی حسین و جمیل ہوتی ہیں لیکن شوہر عام طور پر گہرے سانولے (اب کالے کلوٹے کہنا اچھا نہیں لگتا ) ہوتے ہیں ۔ اس لیے ذرا نک چڑی سی ہوتی ہیں۔ بہر حال صبروشکر کے سہارے گزارا ہو ہی جاتا ہے ۔

کام چور بیوی
یہ باتیں بنانے میں نمبر ون اپنا خیال رکھنے میں ماہر لیکن کام کے معاملے میں زیرو ہوتی ہیں۔ عام طور پر مہمانوں کے آنے کا سن کر ان کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔ محفلوں میں کا م کے وقت بھی یہی کیفیت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ان کا مرض سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ پرانے زمانے میں سر پر بندھی پٹی کے سبب آسانی سے پہچانی جا سکتی ہیں مگر اب سٹائل کا زمانہ ہے۔ شوہر اور بچے کام کر کے نہایت سگھڑ ہو جاتے ہیں۔
شکی بیوی
شوہر بیو ی کے علاوہ کسی اور سے ہنسنا مسکرانا تو دور کی بات کام کی بات بھی نہیں کر سکتے ۔ اگر دن میں دو مرتبہ بال بنا لیں تو قیامت آ جاتی ہے۔ سہیلیوں ، پڑوسیوں اور رشتے داروں کی خوب صورت بیویوں کا گھر میں داخلہ ممنوع ہوتا ہے ۔ اگر اتفاقا آ جائیں تو چوکسی سپاہی کی طرح کڑی نگرانی کرتی ہیں۔
چکنا گھڑا بیوی
مست ملنگ ، نو ٹینشن ، ہنسو ہنساﺅ مزے اڑاﺅ شوہر کی بات ایک کان سے سنو دوسرے سے نکا ل دو زندگی صرف ایک بار ملتی ہے۔ دنیا کے ان چند خوش قسمت لوگوں میں سے ہوتی ہیں۔ جو کوئی بات دل پر نہیں لیتے۔ ان کے شوہر پانی نہیں پیتے صرف خون کے گھونٹ پیتے ہیں۔
دوسری بیوی
یہ دوسری بیوی ہے جس کی سوکن اس کے سینے پر مونگ دلنے کیلئے زندہ سلامت موجود ہوتی ہے۔ ان کی ساری زندگی جوڑ توڑ لڑائی جھگڑے جلنے کھڑنے اور مقابلہ بازی میں گزرتی ہے۔ خود شادی کرتی ہیں تو ساری عمر پچھتاتی ہیں۔ اگر والدین کرتے ہیں تو بے چاروں کو بد دعائیں ملتی ہیں۔ ان کے میاں کھینچاتانی کا شکار رہتے ہیں البتہ دوسرے مرد انہیں رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
وھمی بیوی
ہر وقت اس وہم میں گرفتار کہ انہیں کوئی موذی مرض ہو گیا ہے۔ ٹی وی پر بھی کسی کو بیمار دیکھ لے تو اٹوانٹی کھٹونٹی لے کر پڑ جاتی ہیں۔ شوہر سے کہتی رہتی ہیں بس ا ب چار دن کی مہمان ہوں، ہر دفعہ یہ سن کر شوہر کے دل میں لڈو پھوٹتے ہیں لیکن بیچارہ گنتا ہی رہ جاتا ہے۔ یہ چار دن ختم نہیں ہوتے ۔ شوہر کی آنکھوں میں حسرت ڈیرے ڈال لیتی ہے۔ اکثر ٹھنڈی آہیں بھرتے نظر آتے ہیں۔
غصیلی بیوی
باپ رے باپ ! اتنا غصہ جس سے بات کی اس کی شکایت ضرور کی والا معاملہ ہوتا ہے۔ ان کے شوہر کا ڈانٹیں سن سن کر خون خشک ہو جاتا ہے ۔ اکثر بیوی کی ایک دھاڑ پر پلنگ کے نیچے گھس جاتے ہیں اور بچوں کے ہاتھ پاﺅں جوڑنے کے بعد بڑی مشکل سے برآمد ہوتے ہیں۔ ان کے گھروں میں چمٹا اور بیلن چھپا کر رکھا جاتا ہے ۔
باتونی بیوی
بہت بولتی ہیں ۔ ایک لاکھ جمائیاں لیں ، انگڑائیان لیں ، بے شک ایک نیند لے کر اٹھ جائیں ۔ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ، کیوں کہ آپ کی بات سننے کا انہیں کوئی شوق نہیں۔ اپنی عمر کے راز کے علاوہ کوئی راز بھی محفوظ نہیں رکھ سکتیں۔غور سے دیکھنے پر شوہر کے کانوں میں روئی کے پھائے آسانی سے نظر آ جاتے ہیں۔
آپا بیوی
شوہر سے عمر میں بڑی اور نہایت شفقت کا برتاﺅ کرنے والی ہوتی ہیں۔ اکثر شوہر کا منہ دھلا کر ، گنگھی پٹی کرکے ، جوتے موزے پہنا کر آفس بیھجتی ہیں۔ آئس کریم اور کولڈ ڈرنک کا پرہیز کرواتی ہیں۔ تاکہ منے کا گلا خراب نہ ہو جائے۔ شوہر کے چہرے کی معصومیت اور بھولا پن ساری عمر ختم نہیں ہوتا، البتہ دم گھٹنے کی شکایت اکثر ہوتی رہتی ہے۔
چھپی رستم بیوی
یہ بظاہر دیکھنے میں نہایت تابعہ دار ، فرماں بردار ، شوہر کے حکم پر سر جھکانے والی ہوتی ہیں۔ اکثر و بیشتر اپنی شوہر پرستی کے قصے محفلوں میں سناتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان کے شوہر کے منہ میں ان کی زبان ہوتی ہے۔ یہ وہی بولتے ہیں جو بیوی سکھاتی ہے۔ اگر چھپ کر دیکھا جائے تو حکم عدولی کی صورت میں اٹھک بیٹھک کرتے نظر آتے ہیں۔

بشکریہ : غزالہ خالد