قارعین کرام کو قومی آواز کیجانب سےھادی کونین سرکار دوعالم سرور کائنات پیغمبر اسلام محمد صلی الله وعلیہ وسلم کے یوم پیدائش کی خوشی میں دلی عید میلاد النبی مبارک ھو ۔
انسانی معاشرے میں عظیم سلاطین، عظیم فاتحین، عظیم مصلحین اور عظیم متقین کی کمی نہیں لیکن زیادہ تر افراد اپنے متعلقہ شعبے ہی میں مہارت اور قدرو قیمت رکھتے ہیں. ان تمام اوصاف کا تمام پہلوؤں کے حوالے سے اجتماع صرف ایک ہی شخص میں ہونا. جیسا کہ سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی شخصیت میں ہے. نہ صرف بہت ہی نایاب وکمیاب ہوتا ہے بلکہ وہاں ہوتا ہے جب معلم کو اپنی تعلیمات کو بذات خود عملی شکل دینے کا موقع ملتا ہے یعنی جب تدریس و تجربہ میں توازن پیدا ہوتا ہے.
نام محمد عبداللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف اور کنیت ابو القاسم تھی بخاری و مسلم میں جبیرن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میرے بہت سے نام ہیں ، میں محمد احمد ہوں ، ماحی (کفر کو مٹانے والا) حاشر (لوگوں کو اکٹھا کرنے والا) اور عاقب یعنی آخری نبی ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب سب سے پاکیزہ ، اعلی و ارفع ہے ، واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ عز و جل نے ابراہیم(علیہ السلام) کی نسل سے اسماعیل(علیہ السلام) ، بنی اسماعیل سے کنانہ ، بنی کنانہ سے قریش ، قریش سے بنو ہاشم ، اور بنو ہاشم سے مجھے منتخب کیا (مسلم)
اور جب ہرقل (روم کا بادشاہ) نے ابو سفیان سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب کے بارے میں سوال کیا تو جواب دیا کہ:
وہ ہم میں سب سے اعلیٰ نسب والے ہیں ، ہرقل نے کہا:
انبیاء و رسل ایسے ہی ہوتے ہیں۔
٭٭
ولادت باسعادت
ماہ ربیع الاول میں بروز سوموار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی اور جہاں تک تاریخ کی بات ہے تو اس مسئلہ میں مورخین کے یہاں اختلاف ہے راجح قول یہ ہے کہ ربیع الاول کی 9 تاریخ کو آپ کی پیدائش ہوئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل ہی آپ کے والد کا انتقال ہوچکا تھا ، پیدائش کے بعد ابولہب کی لونڈی ثوبیہ نے آپ کو چند دنوں تک دودھ پلایا پھر حلیمہ سعدیہ نے تقریباً 4 سال تک آپ کو دودھ پلانے کا شرف حاصل کیا اور جب شق صدر کا واقعہ پیش آیا تو حلیمہ سعدیہ نے خوف کے مارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی والدہ کے حوالے کر دیا۔
جب آپ کی عمر 6 سال کی ہوئی تو اپنی والدہ آمنہ بنت وہب کے ساتھ اپنے ننہیال مدینہ گئے واپسی میں مقام ابواء پر والدہ انتقال کر جاتی ہیں اس کے بعد موروثہ لونڈی ام ایمن نے آپ کی پرورش کی ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدا لمطلب نے کفالت کی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 8 سال کی ہوتی ہے آپ کے دادا کی وفات ہو جاتی ہے جنہوں نے وفات کے وقت آپ کے چچا ابو طالب کو کفالت و تربیت کی وصیت کی ، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز کیا گیا تو! ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوب مدد کی لیکن ایمان نہیں لائے ان کی اس تائید و نصرت کی وجہ سے قیامت کے دن انہیں ہلکا عذاب دیا جائے گا۔
٭٭
معصوم الخطا
اللہ رب العالمین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کی برائی سے محفوظ رکھا اور اعلی اخلاق پر فائز کیا آپ بچپن ہی سے صادق و امین کے لقب سے مشہور تھے اسی لئے جب قریش کے مابین تعمیر کعبہ کے وقت حجر اسود کو نصب کرنے میں تنازعہ ہوا اور یہ فیصلہ ہوا کہ جو سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہو گا وہی اس کا حقدار ہو گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جن کی عمر اس وقت 35 سال تھی سب سے پہلے داخل ہوئے جس پر سب نے بیک زبان کہا:
یہ امین ہیں ہم ان سے راضی ہیں پھر آپ نے حجر اسود کو ایک کپڑے میں رکھ کر سرداران قبائل کو کپڑے کا ایک ایک کنارہ پکڑنے کا حکم دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے حجر اسود کو اس کی جگہ پر رکھ دیا (مسند احمد ، حاکم)
٭٭
ازواج مطہرات
1۔ آپ کے اخلاق عالیہ سے متاثر ہو کر خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شادی کا پیغام دیا اس وقت آپ کی عمر 25 سال کی تھی جب تک خدیجہ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسری عورت سے شادی نہیں کی۔
2۔ سودۃ بنت زمعہ
3 عائشہ بنت ابی بکر الصدیق
4۔ حفصہ بنت عمر
5۔ زینب بنت خزیمہ بن حارث
6۔ اُم سلمہ جن کا نام ہند بنت امیۃ تھا
7۔ زینب بنت حجش
8۔ جویریہ بنت الحارث
9۔ ام حبیبہ جن کا نام رملہ بنت ابی سفیان تھا
10 ۔صفیہ بنت حی بن اخطب
11۔ اور سب سے آخر میں میمونہ بنت الحارث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا
خدیجہ و زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما یہ دونوں آپ کی زندگی میں وفات پا گئی تھیں باقی بیویاں آپ کی وفات کے بعد زندہ رہیں رضی اللہ عنھن جمیعاً۔
اولاد
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی 3 نرینہ اولاد تھیں۔
1۔ قاسم انہیں کے نام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابو القاسم پڑی۔
2۔ عبد اللہ جن کا لقب طیب و طاہر تھا۔
3۔ ابراہیم جو مدینہ میں پیدا ہوئے تینوں بچے بچپن میں ہی وفات پا چکے تھے واضح رہے کہ ابراہیم رضی اللہ عنہ کے سوا جو ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے آپ کی تمام اولاد لڑکے اور لڑکیاں سب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوئیں۔
بچیوں میں:
1۔ زینب سب سے بڑی تھیں ان کی شادی ابوالعاص بن ربیع سے ہوئی۔
2۔ رقیۃ جن کی شادی عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔
3۔ فاطمہ حسن و حسین کی والدہ محترمہ جو علی رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں۔
4۔ اُم کلثوم جو رقیہ کی وفات کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں آئیں۔
تمام بچیوں نے اسلام کا زمانہ پایا سب مسلمان ہوئیں فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سوا سب کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہو گیا تھا۔
٭٭
نبوت و رسالت
17 رمضان المبارک بروز پیر یعنی دو شنبہ کو غارحراء میں 40 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز کیا گیا ، جب آپ پر وحی آتی تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل جاتا اور آپ سخت سردی میں بھی پسینہ سے شرابور ہو جاتے ، سب سے پہلے سورت علق کی 5 آیتیں نازل ہوئیں ، نزول وحی کے بعد اپنے گھر تشریف لے گئے مارے خوف کے آپ کا سینہ اچھل رہا تھا امّاں خدیجہ کو ساری داستان سنائی جس پر انہوں نے تسلی دی اور کہا:
اللہ کی قسم وہ کبھی آپ کو رسوا نہیں کرے گا آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ، سچ بولتے ہیں ، لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور مصائب پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
٭٭
انقطاع وحی
کچھ مدت وحی بند رہی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غم سے نڈھال تھے ، ایک دن جبریل امین علیہ والسلام کو آسمان و زمین کے مابین کرسی پر جلوہ افروز دیکھا مرعوب ہو کر گھر تشریف لائے خدیجہ سے فرمایا: زملونی زملونی: یعنی مجھے چادر اوڑھا دو ، مجھے چادر اوڑھا دو پھر سورت مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں ، ان آیتوں کے بعد آپ نے لوگوں کو توحید کی دعوت دینا شروع کر دیا جس پر مکہ والے آپ کے دشمن ہو گئے اور ایذاء اور تکلیف پہنچانا شروع کر دیا ، جس پر چچا ابو طالب نے ڈھال کے مانند آپ کی مدد کی ، ابتدائی 3 سالوں تک خفیہ طور پر دعوت کا کام کرتے رہے اور جب (فاصدع بنا تومر) یعنی (اعلانیہ دعوت دینا شروع کر دیجئے) نازل ہوئی تو آپ نے علی الاعلان دعوت دینا شروع کر دیا ، اللہ تعالی نے جب یہ آیت نازل فرمائی (وانزرعشیرتک الاقربین) یعنی (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پہاڑی پر چڑھ کر آواز لگائی اور جب آپ کے خاندان والے اکٹھا ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے کیا تم لوگ میری بات مانو گے؟ سب نے بیک زبان کہا کہ ہم نے کبھی آپ کو جھوٹ بولتے نہیں پایا تو آپ نے فرمایا :
میں تم لوگوں کو سخت عذاب سے ڈراتا ہوں، ابو لہب نے کہا تیری بربادی ہو کیا تو نے اسی لئے جمع کیا تھا اس پر پوری سورت المسد نازل ہوئی۔
ہجرت حبشہ
جب مکہ والوں نے زیادہ تکلیف دینا شروع کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو حبشہ ہجرت کرنے کا حکم دے دیا ، چچا ابو طالب کی وفات کے بعد لوگوں نے ایذا رسانی میں شدت پیدا کر دی ، صحیحین میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کر رہے تھے پاس ہی میں اونٹ کی اوجھڑی پڑی ہوئی تھی عقبہ بن ابی معیط نے اسے اٹھایا اور آپ سجدہ میں گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر ڈال دیا ، آپ کی بیٹی فاطمہ آئیں پھر انہوں نے اسے ہٹایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا کرتے ہوئے فرمایا:
اے اللہ! سرداران قریش کو ہلاک کردے ، اور صحیح بخاری میں ہے کہ ایک دن عقبۃ بن ابی معیط ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں کپڑا لپیٹ کر زور سے کھینچا ، ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور چھڑاتے ہوئے کہا:
کیا تم ایسے آدمی کو مارنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔ جب لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو طالب و خدیجہ کی وفات کے بعد زیادہ تکلیف دینا شروع کیا تو آپ دعوت توحید لے کر طائف پہنچے جہاں انہیں عناد ، ایذا و مذاق کے سوا کچھ نہ ملا اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ پتھروں سے مار مار کر لہو لہان کر دیا طائف سے مکہ واپس آرہے تھے کہ پہاڑوں کا فرشتہ حاضر خدمت ہو کر گویا ہوا اگر آپ کا حکم ہوتو دونوں پہاڑوں کے بیچ میں اہل طائف کو پیس دیا جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی نسل سے ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اس کے ساتھ کچھ بھی شریک نہیں کریں گے۔
مدینہ طيبه میں اسلام
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام حج میں مدینہ کے 6 آدمیوں کو دعوت دی وہ مسلمان ہو گئے جن کی دعوت سے مدینہ میں کافی لوگ مسلمان ہوئے، جس کے بعد خفیہ طور پر بیعت عقبی اولی و ثانیہ پیش آئی ، اور جب مدینہ میں اسلام کا بول بالا ہو گیا تو آپ نے اپنے صحابہ اکرام کو مدینہ ہجرت کا حکم دے دیا۔ (بخاری و مسلم)
ہجرت مدینہ
بحکم اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کا رخ کیا آپ کے ساتھ ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے دونوں غار ثور
میں 3 دن تک چھپے رہے مدینہ پہنچنے پر آپ کا زبردست استقبال کیا گیا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مسجد اور گھر تعمیر کیا۔
غزوات
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 27 غزوات (جنگیں) کیں چند کے نام یہ ہیں:
غزوہ بدر : 17 رمضان سن 2 ہجری میں ہیش آیا جس میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔
غزوہ احد : شوال سن 3 ہجری کا واقعہ ہے جس میں مسلمانوں کو شروع میں فتح ہوئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
غزوہ بنی نضیر : سنہ 4 ہجری کا واقعہ ہے جس میں یہودیوں کو بد عہدی کے جرم میں مدینہ سے جلا وطن کیا گیا۔
غزوہ مریسیع (بنی مصطلق) : ماہ شعبان سن 5 ہجری میں پیش آیا جس میں دشمن کو شکست ہوئی۔
غزوہ خندق : سنہ 5 ہجری میں ہوا جس میں کفار مکہ ناکام ہو کر واپس گئے۔
غزوہ بنی قریظہ : یہودیوں کے ساتھ پیش آیا وہ مسلمانوں کے حلیف تھے لیکن انہوں نے غداری و بغاوت کی جس کے پاداش میں مردوں کو قتل کر دیا گیا۔
صلح حدیبیہ : سنہ 6 ہجری میں اس وقت پیش آیا جب آپ اپنے جان نثار صحابہ کے ساتھ عمرہ کے لئے تشریف لے جا رہے تھے مقام حدیبیہ پر مکہ والوں نے آپ کے ساتھ 10 سال کے لئے صلح کی اور اس سال عمرہ کرنے سے روک دیا۔
فتح خیبر : یہ محرم سنہ 7 ہجری کا واقعہ ہے یہ جنگ ، خیبر کے یہودیوں کے ساتھ پیش آئی جس میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔
فتح مکہ : رمضان سنہ 8 ہجری میں پیش آیا 12 کافر قتل ہوئے اور صرف 2 مسلمان شہید ہوئے۔
غزوہ حنین : شوال سنہ 8 ہجری میں مسلمانوں اور رومیوں کے مابین پیش آیا۔
غزوہ موتہ : سنہ 8 ہجری میں مسلمانوں اور رومیوں کے مابین پیش آیا۔
غزوہ تبوک : جو سنہ 9 ہجری میں پیش آیا یہ آپ کا آخری غزوہ تھا رومیوں پر اتنا رعب پڑا کہ وہ مقابلہ ہی پر نہ آئے ، اس سال یعنی سنہ 9 ہجری کو عام وفود کہا جاتا ہے کیونکہ اس سال مختلف وفود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہوئے ، اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 56 سریہ بھی بھیجا۔
حج و عمرہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد صرف ایک حج کیا اور 4 عمرے کئے جو سب کے سب ذوالقعدہ کے مہینے میں ادا کئے گئے تھے۔
حلیہ مبارک: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد مبارک درمیانی ، سرخی مائل روشن چہرہ ، گھنے بال ، آنکھیں سخت سیاہ ، سینے اور پیٹ پر معمولی بال ، سینے سے ناف تک بالوں کی باریک دھاری ، سینہ مبارک چوڑا۔
اخلاق
آپ سب سے زیادہ سخی و فیاض ، راست باز ، نرم مزاج ، متواضع ، پابند عہد ، حیا دار ، بردبار اور سب سے زیادہ دلیر اور بہادر تھے۔ غیظ و غضب سے دور تھے کبھی اپنےنفس کے لئے انتقام نہ لیتے انس بن مالک رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی 10 سال تک خدمت کی اگر میں نے کوئی کام کیا تو کبھی یہ نہیں فرمایا کہ یہ کام کیوں کیا اور اگر کوئی کام نہیں کیا تو یہ نہیں پوچھا کہ کیوں نہیں کیا ، البتہ اگر اللہ کی حرمت پامال ہوتی تو اللہ کے لئے انتقام لیتے ، جو ملتا کھا لیتے کھانوں میں کبھی عیب نہ نکالتے مہینوں آپ کے گھر میں آگ نہیں جلتی ، مریضوں کی عیادت کرتے جنازوں میں حاضر ہوتے فقراء و مساکین کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ، ہنسی مذاق بھی کیا کرتے تھے ، لوگوں سے ہمیشہ نرمی کے ساتھ پیش آتے غرض یہ کہ آپ تمام اخلاق عالیہ کے حسین پیکر تھے۔
مناقب
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے 5 چیزیں ایسی دی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں ایک ماہ کی مسافت سے لوگوں کے دلوں میں میرا رعب ڈال دیا گیا ، پوری زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک بنا دیا گیا جہاں بھی نماز کا وقت ہو نماز پڑھ لیں ، میرے لئے مال غنیمت کا حلال کیا گیا ، مجھے شفاعت سے نوازا گیا اور ہر نبی اپنی قوم کے لئے خاص بھیجا جاتا جبکہ مجھے پوری دنیا والوں کے لئے بھیجا گیا ہے۔ بخاری و مسلم
صحیح مسلم میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بروز قیامت سب سے پہلے میری شفاعت قبول ہو گی ، اور میری امت سب سے زیادہ ہو گی اور میں سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔
٭٭
عبادت و معیشت
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں قیام اللیل میں ورم ہو جاتا تھا آپ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ (بخاری و مسلم)
نیز فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر چمڑے کا تھا جس میں کھجور کے تنے کی چھال بھری ہوتی تھی۔
٭٭
حجۃ الوداع: جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ 1 لاکھ مسلمانوں نے حج کیا۔
٭٭
وفات
سنہ 11 ہجری میں ربیع الاول کی 12 تاریخ سوموار کے دن بوقت چاشت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی (انا للہ وانا الیہ راجعون) وفات کے وقت آپ کا سر مبارک عائشہ رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا ، غسل و تکفین کے بعد آپ پر لوگوں نے باری باری نماز جنازہ ادا کی ، آپ کو 63 سال کی عمر ملی جس میں سے 23 سال رسالت کے تھے ، 13 سال مکہ اور 10 سال مدینہ میں رہے۔ اس ذات مبارکہ و مقدسہ پر انگنت درودوسلام نازل ہوں۔