آزادی کیا ہے؟ کسے کہتے ہیں، آزادی کے بعد تم نے کیا کرنا ہے؟ جو اب نہیں کرسکتے؟

اگست…17… 2019
قومی آواز ٹورنٹو:  ۔
تحریر ۔ ارشد محمود

آزادی کیا ہے؟ کسے کہتے ہیں، آزادی کے بعد تم نے کیا کرنا ہے؟ جو اب نہیں کرسکتے؟

یہ وہ سوالات ہیں، جسے ہر اس فرد اور قوم سے پوچھنا چاہئے، جو ‘آزادی’ کی طلب گار ہو۔ اگر یہ سروے کرلیا جائے، تو آزادی کے طلب گار اور آزادی کے ایجنڈے کو سپورٹ کرنے والے ۔۔۔ سب کی ہوا نکل جائے گی، ان کے کھوکھلے ہونے کی حقیقت کھل جائے گی، ہر کشمیری ہر فلسطینی سے اور ہر نام نہاد آزادی پسند سے یہ سوالات پوچھ لیں، وہ غیر واضح بھانت بھانت کے جواب دیں گے۔ ‘آزادی مانگنے والے ہوں، یا آزادی دلوانے کے علمبردار ( آج اس گینگ میں ہمارے کئی لبرلز آزادی کا جھنڈا اٹھائے زندہ باد مردہ باد کررہے ہیں)۔ کسی کو نہیں پتا۔۔۔ آزادی سے مراد کیا ہے، اس کے بعد کرنا کیا ہے، ہم نے اس طرح کے صرف چمکیلے الفاظ سن رکھے ہیں۔ اور پھر ان کی پوجا شروع کردیتے ہیں۔۔ سوچے بغیر ہم حقیقت میں کیا چاہتے ہیں؟ اور کیوں چاہتے ہیں، ہماری زندگی میں کونسی رکاوٹ ہے جو ‘سیاسی آزاد’ ملنے سے دور ہو جائے گی۔۔۔

حیرت ہے، پاکستانیوں کے لئے ‘پاکستان بنانے’ اور آزادی لینے کا تجربہ بڑا سبق آموز ہونا چاہئے تھا۔۔ تقریبا تمام ترقی پسند شعرا، ادیبوں، دانش وروں نے پاکستان بننے کے کچھ دنوں، مہینوں، سالوں بعد کہہ دیا ہے، یہ وہ سویرا نہیں۔۔ جس کی ہمیں خواہش تھی، یہ داغ داغ اجالا ہے۔۔ اب تو یہ مکمل تاریکی میں جا چکا ہے۔۔ صرف جذبات رہ گے ہیں، نعرے ، پروپیگنڈا، اندھی اور بے معنی حب الوطنی۔۔۔ حیرت ہے اتنے برے تجربے کے بعد بھی جہاں ہم مکمل طور پر ایک غلام شہری کی زندگی گزار رہے ہیں، جس میں نہ ریاست نہ معاشرہ کسی دوسرے شہری کا ہمدم اور کئیر ٹیکر ہے۔ ‘آزاد وطن’ کے کروڑوں، غربت اورجہالت زدہ لوگ، انتہائی آمرانہ ماحول میں پلنے والے۔۔۔۔ کسی ‘کشمیری نام کی قوم’ کو آزادی دلوانا چاہتے ہیں۔۔۔

میرے ان آزادی کے جہادی لبرلز سے گزارش ہے کہ پہلے قومی آزادی کے پھل ان 21 کروڑ لوگوں کو دلوا لیں۔۔۔ “آزاد کشمیر’ کو اور اس کے باسی کشمیریوں کو تو آزادی لے دیں۔۔۔ اور پھر آزادی کے بعد اور آزادی سے پہلے کا جو فرق ہونا چاہئے۔۔۔ اس کا پہلے نصاب تو سمجھ لیں۔۔۔

آزاد پاکستان کی ایک جابرانہ ریاست کے ہم سب شہری ہیں۔۔۔ ہمیں تو ایک میکانیکل جمہوریت میسر نہیں۔۔ جس میں اپنی مرضی کا ووٹ ڈال سکیں اور مرضی کی لیڈرشپ چن سکیں۔۔۔ کیا ہمارا خیالی آزاد کشمیر ویلفیر سٹیٹ ہوگا۔۔۔ کیا وہاں کے شہریوں کو اپنی زندگی کو خوش کن، بھرپور صلاحیتوں کے مطابق زندہ رہنے کی گارنٹی ہوگی۔۔۔ ؟ کیا کشمیرآزادی کے بعد دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہوگا؟

آزادی کی مانگ کرنے سے پہلے آزادی کے معنی پڑھ اور سیکھ لو۔۔ اگر آپ ‘غلامی’ میں بندے کے پتر نہیں۔۔۔ تو نام آزادیاں بے کار ہوتی ہیں۔۔۔ آزادی ویلے، بے کار، جاہل، جذباتی لوگوں کا کھیل ہے۔۔۔ آزادی کے نعرے بذات خود استحصالی قوتیں کروا رہی ہوتی ہیں۔۔۔ افسوس ہے یہ لبرلز ۔۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا دستہ بن گے ہیں۔۔ ان میں اور حافظ سعید اور شیخ رشید میں کوئی فرق نہیں رہا۔

یہی ایک عقل وشعور رکھنے والے کی دل کی پکار ہے اور یہی قومی آواز ہے


متعلقہ خبریں