تنہا اداس رتوں کا ادیب

قومی آواز ۔ کولمبیا کے اس نوجوان کے لئے یہ جنوری کی ایک عام رات تھی، سرد، اداس اور اجنبیت لئے ہوئے۔ وہ قانون کا طالب علم تھا، مگر اسے شاعری اور فکشن پڑھنے کا جنون تھا۔ ادب سے اسے بے حد دلچسپی تھی ،مگر کبھی اس نے قلم اٹھایا نہیں تھا، وہ دنیا کے معروف تخلیق کاروں کی تحریریں پڑھتا اور حظ اٹھاتا… اور بس۔ ایک دو بار کسی دوست نے اسے کہا کہ تم اتنا پڑھتے ہو تو کبھی خود بھی کہانی لکھو، نوجوان یہ سن کر ہنس دیا۔ اس نے کہا یہ میرے بس کی بات نہیں۔ پھراس کی زندگی میں ایک ایسی رات اتری ،جس نے اس کی زندگی اور تقدیر ہی بدل ڈالی۔ ایک رات اسکے دوست نے نثر کی ایک کتاب پڑھنے کو دی۔ نصف شب کو اپنے خستہ حال بستر میں لیٹ کر اس نے کتاب پڑھنا شروع کی۔ یہ بیسیویں صدی کے سب سے بڑے علامتی فکشن نگار کافکا کا ناولٹ میٹا مارفوسس ( The Metamorphosis) تھا۔ کہانی بڑے ڈرامائی انداز میں یوں شروع ہوئی ،’’جب ایک صبح گریگر سمسا اپنے مضطرب خوابوں سے بیدار ہوا تو اس نے خود کو اپنے بستر پر ایک بڑے سے کیڑے کے روپ میں پایا…‘‘ نوجوان پر لرزہ طاری ہوگیا، اس نے سوچا، اچھا توکہانی یوں بھی لکھی جا سکتی ہے۔ اگلی صبح اس نے فیصلہ کیا کہ کہانی کار بننا ہے۔ اگلے دو سال وہ دن رات کہانیاں ہی پڑھتا رہا۔ بے ترتیب لباس اوربڑھی ہوئی ڈاڑھی لئے ،کتاب اٹھائے وہ رات بھر ایک کیفے سے دوسرے کیفے گھومتا رہتا،جہاں رات پڑ جائے ،وہاں سو جاتا۔ اس نے دستئوفسکی ،ٹالسٹائی، ڈکنز،فلابئیر،ستاں وال،بالزاک ،زولا سمیت دیگر بڑے ناول نگاروں کو چاٹ ڈالا۔ بیس سال کی عمر میں وہ واپس ساحلی علاقوں کی جانب لوٹ گیا۔ کارتا حینا نامی ایک پرانے سے شہر کے اخبار ایل یونیورسل میں اس نے بطور سب ایڈیٹر ملازمت اختیار کرلی۔ دفتر کے بعد وہ باقی تمام وقت کہانیاں پڑھنے اور لکھنے میں گزار دیتا۔ اس شہر میں اس پر یونانی ادب منکشف ہوا۔ سوفوکلیزکے ڈراموں نے اسے سحرزدہ کر دیا۔ یونانی ادب کے بعد اینگلوسکسین ادبیوں جیمس جوائس، ورجینا وولف اور ولیم فاکنز کی تحریروں نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ برسوں بعد اس نے اپنے ایک طویل انٹرویو میں انکشاف کیا ،’’ مجھے کافکا نے پہلی بار بتایا کہ میں ادیب بن سکتا ہوں،مگر لکھنے کے ہنر کو سنوارنا اور اس کی باریکیاں سیکھنے میں ہیمنگوئے سے مدد ملی ۔ ہیمنگوئے کی ایک نصحیت یہ تھی کہ افسانے کی بنیاد آئس برگ کی طرح ،اس حصے پر قائم ہونی چاہیے ،جو نظروں سے اوجھل ہو،یعنی وہ سارا غوروفکر ،مطالعہ اور وہ سارے لوازمات جنہیں اکٹھا کیا گیا،لیکن افسانے میں براہ راست استعمال نہیں کیا گیا۔ ‘‘ اس کا اگلا پڑائو ایک اور شہر ’’بارنکیلا‘‘ تھا۔ یہاں کے اخبار ایل ہیرالدو میں اسے ملازمت مل گئی۔ یہاں اس کی ملاقات چند سرپھرے نوجوانوں سے ہوئی ، ادب ان کا جنون تھا۔ یہ لوگ ان تھک مطالعے میں مصروف رہتے اور راتوں کو مے خانوںمیں مشروبات پیتے ،صبح تک ادب پر مباحث کرتے رہتے۔ ہر رات کئی ایسی کتابوں کاذکر آتا جو اس مضطرب نوجوان کے لئے نئی ہوتیں ۔ اگلے روز وہ کتابیں اسے عاریتاً مل جاتیں۔ اس دوران اس کا لکھنے کا عمل جاری رہا۔ اخبار چھپ جانے کے بعد دفتر ویران ہوجاتا،مگر وہ بیٹھا اپنا پہلا ناول ’’پتوں کا شور‘‘ لکھتا رہتا۔ تھکن سے چور وہ جب اپنی کرسی سے اٹھتا تو صبح ہوچکی ہوتی۔ مسودہ بغل میں دبائے وہ ایک سستے ہوٹل کا رخ کرتا جہاں ایک چھوٹے ڈربہ نما کمرے میں اس کا پلنگ بچھا ہوتا۔ اس ناول کو پانچ سال تک کوئی بھی پبلشر اسے چھاپنے پرتیار نہ ہوا،ایک مشہور نقاد نے مسودہ پڑھنے کے بعد اسے کوئی اور پیشہ اختیارکرنے کا مشورہ دیا۔ حوصلہ ہارنے کے بجائے اس نے اپنا ناول خود شائع کیا،مگر اسے کچھ زیادہ پزیرائی نہ ملی۔ جلد ہی اس کے اخبارنے اسے رپورٹنگ کے لئے یورپ روانہ کر دیا۔ وہ پیرس کے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں مقیم رہا۔ یہیں اس نے اپنا ناول ’’منحوس وقت ‘‘اور ’’کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا ‘‘تحریر کیا۔اگلے برسوں میں اسے کئی تلخ تجربات سے گزرنا پڑا، حتیٰ کہ اپنی بیوی اور ننھے بچے سمیت تنگدستی میں میکسیکو کا رخ کیا۔ وہیں پر اس نے اپنا پانچواں ناول لکھا،جس نے اس کی تقدیر بدل ڈالی۔ اپنے ایک ادیب دوست کو خط میں اس نے لکھا کہ میرا یہ ناول (لاطینی امریکی موسیقی کی مشہور طرز)بولیرو کی طرح ہے۔ اس کا ناول سپرہٹ رہا، فلمی اصطلاح میں وہ بلاک بسٹر ناول ثابت ہوا۔ ارجنٹائن کے سب سے بڑے پبلشر نے مسودہ پڑھنے کے بعد پہلا ایڈیشن بیس ہزار کی تعداد میں چھاپنے کا فیصلہ کیا، دو ہفتوں میں پورا ایڈیشن نکل گیا۔ اس کے درجنوں ایڈیشن چھاپے گئے ۔ یہ ناول ’’تنہائی کے سو برس ‘‘تھا ،جس نے اسے لاطینی امریکہ کا سب سے بڑا ادیب بنا دیا۔ پندرہ برس کی محنت کے بعد آخر کامیابی نے اس کے قدم چوم لئے تھے۔آج دنیا اسے گارشیا مارکیز کے نام سے جانتی ہے ۔پنی جوانی کا ایک حصہ عسرت میں گزارنے والے مارکیز کے لئے ’’تنہائی کے سو سال‘‘ کے بعد کی زندگی یکسر مختلف تھی۔ لاکھوں ڈالر کے کنٹریکٹ، لاتعداد ٹی وی ٹاک شوز اور اخبارات وجرائد میں انٹرویوز کی درخواستیں۔ ایک پرآسائش گھر میکسیکو،ایک لگژری فلیٹ کولمبین دارالحکومت بوگوتا میں ،ایک شاندار ولا فرانس میں ۔گارشیا مارکیز نے برسوں بعد میں ایک ٹی وی انٹرویو میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا ،’’لوگ مجھے انتہائی کامیاب ادیب سمجھتے ہیں،جس کا ہر لفظ سینکڑوں ڈالر میں فروخت ہوتا ہے۔ یہ درست ہے ،مگر اس کامیابی سے پہلے ایک لمبا عرصہ … صعوبتوں اور مشکلات سے بھرے ڈیڑھ عشرے کا عرصہ بھی موجود ہے۔ تنہائی کے سو سال کے پیچھے میرے پندرہ برسوں کی محنت شاقہ شامل تھی۔ گرمیوں کی سینکڑوں حبس آلود اور سردیوں کی ٹھٹھرا دینے والے راتوںمیںمتواتر گھنٹوں لکھنے کی مشق۔کئی مہینے ایسے گزرے،جن میں فاقوں کے باوجود میں بیس بیس گھنٹے پڑھتا رہتا۔ ان سب کے ثمرات مجھے اپنے پانچویں ناول میں ملے۔ کامیابی کا راستہ کبھی مختصر نہیں ہوتا۔‘‘

 


متعلقہ خبریں