خدا پر یقین انسانی ذہن پرکیسے اثرات مرتب کرتا ہے ؟

قومی آواز ۔ لندن: دنیا بھر میں موجود مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد خدا کی ذات پر کامل یقین رکھتے ہیں ۔ تاہم جہاں اتنی بڑی تعداد میں لوگ خدا کی موجودگی پر یقین رکھتے ہیں وہیں ایسے افراد بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جو خدا پر یقین نہیں رکھتے ۔ماہرین نفسیات اور ذہنی امراض کے ماہرین طویل عرصے سے ریسرچ میں مصروف ہیں کا کہنا ہے چونکہ خدا کو کبھی کسی نہیں دیکھا ایسے میں وہ افراد جو بغیر دیکھے خدا کی موجودگی پر یقین رکھتے ہیں اس عمل کے نتیجے میں ان کے ذہن پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ریسرچ کے مطابق جب انسان خدا پر بنا دیکھے یقین کی منزل پر ہوتا ہے کہ اس کی تجزیاتی سوچ اندھے اعتقاد کے زیر بار آجاتی ہے ۔ماہرین کی رائے کے مطابق جب وہ روحانی کیفیت میں مبتلا ہوتے ہیں تو حقیقی دنیا کے مخالف سوچنے لگتے ہیں۔مذکورہ تحقیق کے سربراہ پروفیسر ٹونی جیک کا کہنا ہے کہ تجزیاتی نقطہ نظر سے عقیدے کا سوال بڑی حد تک مضحکہ خیز نظر آتا ہے ۔لیکن عقیدے پر یقین رکھنے سے انسانی دماغ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اس سوال کا جواب پانے کیلئے ماہرین نے کل آٹھ تجزیاتی تجربات کیے ۔ پلوس ون جرنل میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق مشاہدے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ جو افراد خدا پر یقین رکھتے ہیں وہ یقین نہ رکھنے والوں کے مقابلے میں ذیادہ ہم احساس ہوتے ہیں ۔ریسرچرز نے تحقیق کے دوران آٹھ تجربات میں خدا ،تحلیلی سوچ اور اخلاقی تشویش کے اقدامات اور ایمان کے درمیان پانے جانے والے تعلقات کی جانچ پڑتال میں159اور527بالغ افراد کے ذہنوں کا مشاہدہ کیا۔اگرچہ روحانی عقیدے ،ہم احساس ہونے اور دعا، مراقبے مثبت انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک رہے ۔اس قبل پروفیسر جیک نے عقیدے پر یقین رکھنے والوں کی سوچ کو سمجھنے کیلئے ایم آر آئی ٹیسٹ کیے جس میں واضح ہوا کہ انسانی ذہن میں نیورانز کا ایک نیٹ ورک پھیلا ہوا ہے جو انسان کی تجزیاتی اور تنقیدی سوچ کو ابھارتا ہے ۔ پروفیسر جیک نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انسانی ذہن میں پھیلے ان نیورانز کے درمیا ن روحانی سوچ اور تجزیاتی سوچ کے درمیان کشیدگی پیدا ہوتی ہے ۔ ریسرچرز کا کہنا ہے کہ چونکہ قدرتی طور پر انسانی ذہن دونوں متضاد دنیاﺅں کے متعلق غور کرتا ہے ، پس جب وہ حقیقی دنیا میں کسی مسئلے کا شکار ہوتا ہے تو دونوں نیٹ ورکس ایک ساتھ ایکٹیویٹ ہوتے ہیں ۔ اس صورتحال میں ایک نیٹ ورک دوسرے کو زیر بار کرنے کی کو شش کرتا ہے ۔ ریسرچرز کی رائے کے مطابق ان دو طرح کے متضاد نیٹ ورک اور سوچ تصادم مذہب اور سائنس کے درمیان کشمکش کی کیفیت کا باعث بنتا ہے ۔ کیس ویسٹرن یونیورسٹی کے پروفیسر رچرڈ بویوٹزس کا کہنا ہے کہ جب دونوں نیٹ ورکس ایک دوسرے کو دبانے کی کو شش کرتے ہیں تو اس سے انسانی سوچ دو انتہاﺅں پر منتج ہوتی ہے جو انسانی ذہن کیلئے نقصان دہ ہے ۔