شائستگی جس پر ’’ فری ہونے کے بہانے ‘‘ کی چھاپ لگ گئی

قومی آواز ۔ لاہور معاشرتی اقدار میں کس قدر تیزی سے بدلاؤ آرہا ہے، اس کا درست اندازہ لگانا ہے تو ساٹھ ستر یا پھر اس سے بھی پہلے کی فلمیں دیکھیں ۔ آپ کو خود ہی اندازہ ہوجائے گا کہ وہ اقدار جو کبھی شائستگی کے زمرے میں آتیں اور مرد ان پر فخر کرتے تھے، وقت کے ساتھ ساتھ بے تکلفی کے بہانے کہلانے لگیں اور یوں مردوں نے شرافت اسی میں جانی کہ انہیں چھوڑ دیں۔ مثال کے طور پر اب سے کچھ عرصہ پہلے تک گلی محلوں میں عام طور پر لڑکیوں کو آتا دیکھ کے لڑکے کنارے پر ہونے کو خود پر فرض سمجھتے تھے، یہ رواج اب بھی ہے۔ یہی حال دیگر تمام اقدار کا بھی ہے۔ پاکستان اور دیگر مشرقی ممالک میں تو ان مروجہ روایتوں کی پاسداری اگر پوری طرح نہ بھی سہی تو کسی نہ کس حد تک ہی دیکھنے کو مل جاتی ہے تاہم یورپی معاشرہ ان اقدار کو بہت پیچھے کہیں چھوڑ آیا ہے۔ قومی آواز نے ان اقدار کو دوہرانے کا فیصلہ کیا ہے کہ یہ بھولی بسری یادیں شائد معاشرے میں بھی کوئی تبدیلی لانے کا سبب بنیں۔
ماضی میں خواتین اور بزرگوں کی کمرے میں آمد پر مرد احتراماً اپنی کرسی چھوڑ کے کھڑے ہوجاتے تھے۔ اب محض مہمانوں کی آمد پر ہی ایسا دیکھنے کو ملتا ہے اور اگر یہاں بھی معاملہ بے تکلفی کا ہو تو بیٹھے بیٹھے ہی کام چلانے کی کوشش ہوتی ہے۔
سڑک پر چلتے ہوئے ہمیشہ کوشش کی جاتی تھی کہ خواتین کو اندر کی طرف جبکہ خود باہر ٹریفک والی جانب چلا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں مرد اسی مقصد کیلئے طویل کوٹ پہنا کرتے تھے جو کہ آج بھی ’’جنٹل مین‘‘ کی علامت سمجھے جاتے ہیں، تاکہ خواتین کو سڑک پر چلتے ٹانگوں اور گھوڑوں کے چلنے سے پیدا ہونے والی دھول اور کیچڑ سے خواتین کو بچایا جاسکے۔
مرد گاڑی میں سوار ہوتے ہوئے خواتین کیلئے دروازہ کھولا کرتے تھے۔ اب ایسا عموماً اس صورت میں ہوتا ہے کہ جب خواتین کی گود میں بچہ ہو یا سامان۔ اسکے علاوہ نئی نئی شادی کی صورت میں بھی ایسے نخرے اٹھائے جاتے ہیں تاہم اسی دور میں اس عادت کا مزاق بھی بنایا جاتا ہے جس پر اکثر مرد یہ عادت ترک کر ڈالتے ہیں۔ اسی طرح میز پر بیٹھنے سے قبل خواتین کیلئے کرسی بھی کھینچی جاتی تھی۔ مگر آج کل کے دور میں مرد اپنی کرسی ہی عموماً میز کی جانب رخ کرنے کے بجائے ٹی وی کے رخ پررکھتے ہیں تاکہ کوئی انہیں پریشان نہ کرسکے۔ نشست و برخاست میں بھی انتظار کیا جاتا تھا کہ مہمان بیٹھ جائیں جس کے بعد میزبان بیٹھتے تھے اور خواتین مہمان کی صورت میں یہ لحاظ اور بھی بڑھ جایا کرتا تھا۔
شائستگی کے زمرے میں یہ بھی آتا ہے کہ کسی کے گھر دعوت پر جانے کی صورت میں کھانے کی ہلکے پھلکے الفاظ میں تعریف کی جائے۔ اب صاف گوئی کے نام پر کھانے میں نقص نکالنا عام ہے جو کہ تہذیب کے انتہائی برخلاف ہے۔
توجہ پانے کیلئے اونچے اونچے قہقہے کسی بھی دور میں تہذیب یافتہ افراد کی پہچان نہیں سمجھے گئے، اپنی پہچان اپنی شخصیت سے کروائیں ناکہ فلک شگاف قہقہوں سے۔
تقریبات میں مرد خواتین کے پیچھے چلتے تھے، تاکہ انہیں ان کا پیچھا کرنے میں دشواری نہ ہو کیونکہ خواتین کیلئے عموماً اپنے لباس کی وجہ سے تیز چلنا مشکل ہوتا ہے جبکہ مرد اپنی رفتار دھیمی کرکے ان کا ساتھ دے سکتے ہیں۔
شائستگی کی علامت دوسروں کیلئے نشست خالی کرنا بھی ہے، ضروری نہیں کہ آپ کسی خاتون یا بزرگ کیلئے ہی ہمیشہ نشست خالی کریں بلکہ کوئی بھی شخص جو کھڑا دکھائی دے اس کیلئے نشست خالی کی جاسکتی ہے


متعلقہ خبریں