نہاری اور پائے کھانے سے آپ میں کونسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں

قومی آواز ویب ڈیسک
پیٹ بھر کھانے کے کسی بھی حیوان سے یہ توقع کی جائے گی کہ وہ پُر سکون ہوجائے اور شکم سیری سے اس پر غنودگی طاری ہو چاہے،چاہے وہ حیوان انسان ہی کیوں نہ ہو۔ بھوک کی حالت میں حیوانات ہوشیار اور تند مزاج ہو جاتے ہیں، اس لیے جنگل اور بیابان ہی کیا، شہروں اور قصبات میں بھی کئی مرتبہ گھریلو جھگڑے بد ذایقہ یا وقت پر کھانا تیار نہ ہونے کی وجہ سے ہوجاتے ہیں۔ بھوک کے باعث خوراک سے متعلق یہ جذباتی لگاؤ ہی حیوانات کو غذا تلاش کرنے پر اکساتا ہے۔ لیکن کھانے پینے سے متعلق یہ خیال کہ ’’پیٹ بھرا ہو تو سب اچھا ہے، اور بھوک میں سب کچھ برا ہی لگتا ہے‘‘ عمومی طور پر یہ بات صدیوں کے تجربات کے پیش نظر درست تصور کی جاتی ہے۔ لیکن غذا اور ذہنی کیفیت کے، جسے مزاج یا موڈ بھی کہا جاسکتا ہے، مابین تعلق اس سے ذرا مختلف اور کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ پریشانی یا ذہنی تناؤ کی وجہ سے پُر خوری یا زیادہ کھانے کو باقاعدہ نفسیاتی خلل قرار دیا جاتا ہے، لیکن حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ایک تحقیق کے مطابق کھانے سے متعلق انسانی رویے کو “emotional eating” کے تناظر میں بھی سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کسی خاص ذہنی کیفیت میں کسی خاص کھانے پینے کی چیز کا انتخاب کرتا ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ پریشان خیالی کے باعث بعض افراد زیادہ میٹھی یا چکنائی سے بھرپور بھاری غذا کا انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ جرنل آف کنزیومر سائیکالوجی کے سرفہرست مصنفین میں شامل میرل گارڈنر کہتی ہیں ’’ ہم مختلف جذبات، کیفیات اور حالات کے زیر اثر کھانے کا انتخاب کرتے ہیں اور اس کے اسباب خالصتاً جذباتی ہوتے ہیں۔‘‘ گارڈنر خوراک اور جذبات کے مابین تعلق پر تحقیق کرنے والی ماہرین کی ٹیم کے سربراہ بھی ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ منفی احساسات یا جذباتی کیفیت اور غیر صحت مند غذائی عادات کا آپ سے ایک مستقل تعلق ہے، اگرچہ ہر فرد کا انتخاب مختلف ہوسکتا ہے۔ رنجیدہ خاطر افراد زیادہ تر کھانے پینے کی ایسی اشیا کا انتخاب کرتے ہیں جو اپنی غذائی خصوصیات کی وجہ سے مضر ہوتی ہیں، ان میں عام طور پر مٹھائیاں، تلی ہوئی اور دیر سے ہضم ہونے والی اشیا شامل ہوتی ہیں۔ انسانی مزاج اور کھانے کے مابین تعلق میں یہ بات ابھی تک بہت واضح نہیں کہ انسان مثبت احساسات یا خوش مزاجی کے وقت کس طرح کے کھانے کا انتخاب کرتا ہے۔ اس حوالے سے ہونے والی تحقیق سے ہمیں کچھ اشارے تو ملتے ہیں لیکن کوئی واضح جواب حاصل نہیں ہوتا۔ 1992میں اور 2002میں مرد و خواتین پر الگ الگ ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق خوش ہونے کی صورت میں ہم ’’خصوصی پکوان‘‘ پسند کرتے ہیں جو عام طور پر ہمارے غذائی معمول میں شامل نہیں ہوتے۔ ہم اسے اپنے مقامی ’’کھابا کلچر‘‘ سے سمجھ سکتے ہیں۔ 2013میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ’’خوشی میں خوش خوراکی کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے، عام طور پر ذہنی دباؤ کی حالت میں پُر خوری کو نفسیاتی مسئلہ تصور کیا جاتا ہے لیکن خوشی کی حالت میں بھی غیر صحت بخش اشیا(مٹھائیاں، چاکلیٹ اور چپس وغیرہ) کثرت سے کھائے جاتے ہیں۔‘‘ بعض ریسرچ رپورٹس اس کے برعکس نتائج اخذ کرتی ہیں۔ 2010میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق خوش ہونے کی صورت میں لوگ مٹھائی یا چاکلیٹ کے مقابلے میں پھل اور غذائیت سے بھرپور قدرتی اشیا کھانے کو ترجیح دیتے ہیں جب کہ بعض کے خیال میں ایسا تب ہی ہوتا ہے جب خوشی یا اطمینان کی کیفیت تادیر باقی رہے، اگر یہ کیفیت وقتی ہوتو ’’ ماحول‘‘ قائم رکھنے کے لیے خصوصی پکوانوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔‘‘ گارڈنر اور ان کی ٹیم نے منفی جذبات اور غیر صحت بخش خوراک، مثبت جذبات اور صحت بخش خوراک کے مابین تعلق کی نشان دہی کی ہے لیکن ساتھ ہی وہ اس میں وقت اور حالات کا عنصر بھی شامل کرتے ہیں۔ تحقیق کے دوران انھوں نے یہ مشاہدہ کیا کہ جو افراد مستقبل کے بارے میں زیادہ سوچتے ہیں کھانے پینے کے معاملے میں انتخاب کرتے ہوئے وہ صحت کے اصول مدنظر رکھتے ہیں۔ ’’جب انسان اچھے موڈ میں ہوتا ہے تو چیزوں کو بڑے تناظر میں دیکھتا ہے، یوں سمجھیے کہ اس کی نظر جنگل پر ہوتی ہے درختوں پر نہیں، لیکن جب آپ صرف سامنے کے منظر ہی پر نظر جمائے ہوئے ہوں تو فوری تسکین پیش نظر رہتی ہے، ایسا عام طور پر یاسیت کی صورت میں ہوتا ہے لیکن ہم اس مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں۔‘‘ برطانوی ماہر نفسیات ڈاکٹر گبسن ان نتائج کو دل چسپ ضرور قرار دیتے ہیں لیکن ان سے متفق نہیں۔ ’’ہم یقین سے اس بارے میں نہیں کہہ سکتے کے عام طور پر انسانوں کے غذائی معمول میںکیا عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔کھانے پینے جیسے انسان کے معمولات اور عادات میں ارادے اور طرز عمل کے مابین پائے جانے والے فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ غذا کے معاملے میں ہم عام طور پر یہ ارادہ ضرور کرتے ہیں کہ یہ صحت بخش ہو لیکن جب بھوک کی حالت میں پُرتکلف کھانا ہمارے سامنے آتا ہے تو اس ارادے پر ’’عادتاً‘‘ عمل نہیں کرپاتے۔‘‘ اگر ہم اپنے معمولات کا جائزہ لیں تو ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کھانے کا انتخاب کرتے ہوئے مستقبل کا خیال ہمارے ذہن میں ہو۔ مثلاً دوپہر کے کھانے کے لیے سلاد یا پزا، سینڈوچ یا بریانی کی پلیٹ کے مابین انتخاب کرتے ہوئے ہم یہ نہیں سوچتے کہ یہ کھانا ہمارے جسم پر کیا اثرات مرتب کرے گا۔ اور یہ تو ہم جان ہی چکے ہیں کہ خوشی میں تو عام طور پر ہمیں اچھے کھانے کی ’طلب‘ ہوتی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ہمارا مزاج اور ذہنی کیفیت کھانے کے انتخاب میں کس حد تک اثر انداز ہوتے ہیں، ڈاکٹر گبسن کا کہنا ہے کہ انسانی تاریخ پر غور کرنے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر انسان توانائی سے بھرپور غذا کو، جسے ہم موافق خوراک کہتے ہیں، بہترین تصور کرتا ہے۔ ’’ہومو سیپیئن کے طور پر خوراک کے معاملے میں انسان زیادہ ارتقا پذیر نہیں ہوا۔ تولیدی عمل اور بقا کے لیے بیس سال کی عمر تک انسان وہ چیزیں کھاتا ہے جنھیں وہ پُر قوت تصور کرتا ہے۔ ہم خوشی خوشی ہڈیوں سے نکلنے والا گودا شوق سے کھاتے ہیں کیوں کہ ہمارے پیش نظر غذائیت یا منفی و مثبت اثرات نہیں بلکہ توانائی اور طاقت ہوتی ہے۔ ہم اپنی غذائی ضرورت پوری کرتے ہوئے یہی تقاضا مد نظر رکھتے ہیں، بھلے سے اس کے نتیجے میں ہمارا عرصہ حیات مختصر ہی کیوں نہ ہوجائے۔ غذا سے متعلق حفظان صحت کے اصولوں کا تصور ماڈرن ہے اور کلچر کا حصہ بن چکا ہے کیوں کہ اب ہم زیادہ جینا چاہتے ہیں۔ لیکن دل پسند غذا کی طرف رغبت ہماری فطرت کا حصہ ہے، اسے ہم نے اپنی جبلی ضروریات کے مطابق ترتیب دیا ہے۔‘‘ ہم ایک خاص عرصے تک تو ابلی ہوئی سبزیاں اپنے معدے میں جھونکنے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں لیکن صرف صحت کے نام پر ایسا مستقل نہیں کر پاتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان نے کبھی اپنے لیے صحت بخش خوراک کا انتخاب نہیں کیا لیکن جب بھی ایسا کیا ہے تو اس کا بہت زیادہ تعلق ہمارے مزاج سے نہیں رہا۔ اس کی ایک وجہ اور بھی ہے کہ جب ہم مثبت جذبات یا اچھے موڈ کی بات کرتے ہیں تو ان کی زمرہ بندی کرتے ہوئے کئی متضاد رویے اسی ایک زمرے میں آتے ہیں۔ مطمئن اور پرُجوش ہونے میں فرق ہے اور یہ دو مختلف کیفیات ہیں جو ہمیں غذائی انتخاب میں مختلف رویہ اپنانے کی طرف اکساتی ہیں۔ گارڈنر اس کی مثال یوں دیتی ہیں:’’جب بھی ہم کوئی خوشی منانا چاہتے ہیں تو اکثر غیر صحت بخش غذا کا انتخاب کرتے ہیں، مثلاً سال گرہ کے موقعے پر ہم کیک کھاتے ہیں، مختلف لذیذ کھانے کھاتے ہیں اور کھانے کی مقدار بھی معمول سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا اصل سبب اس موقعے کا خاص ہونا ہے، کیوں کہ ہم نے ایسا کھانا کھا کر ہی خوشی منانا سیکھا ہے۔ مختلف کلچرز میں اس کے طور طریقے مختلف ہوسکتے ہیں لیکن بنیادی بات یکساں ہے، یعنی کھاؤ اور خوشی مناؤ۔‘‘ 2010میں مختلف ڈائٹ پلانز پر شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جن غذائی عادات سے انسان کی پرورش ہوتی ہے وہ ان سے قلبی لگاؤ رکھتا ہے۔ ایسے افراد کو غذا کے معاملے میں ’’روایت پسند‘‘ یا “comfort eaters” کہا جاتا ہے۔ طبی نفسیات کی برطانوی ماہر کیرول لینڈووا کا کہنا ہے’’کمفرٹ ایٹرز کے نزدیک خوشی منانے کا تصور پکوانوں سے جڑا ہے۔ وہ خوش رہنے کے لیے کھاتے ہیں ، اور اس کے لیے کسی خاص موقعے کا انتظار نہیں کرتے بلکہ معمول کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی وہ یہی طرز عمل اپناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پکوان کلچر کا اہم جزو سمجھے جاتے ہیں۔ انسانوں کو اس روایت سے ہٹانے کے لیے ہمیں بہت کچھ کرنا ہوگا۔‘‘ ڈاکٹر گبسن کے نزدیک خوشی یا جشن منانے کے لیے کھانے کا اہتمام اور اس سے جڑے جذبات خواتین کے مقابلے میں مردوں پر زیادہ غالب ہیں۔ اسی طرح مرد کھانے کے معاملے میں زیادہ روایت پسند ہیں، تلی ہوئی اشیا اور چٹ پٹے کھانوں کے حوالے سے مرد اپنی پسند پر کم ہی سمجھوتا کرتے ہیں۔ لیکن میٹھے کی پسندیدی اور اہمیت پوری دنیا میں یکساں ہے۔ اس کے اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر گبسن کہتے ہیں’’ انسان پیدائش کے بعد سب سے پہلے جو ذائقہ چکھتا ہے وہ مٹھاس ہے۔ ہم پیدا ہوتے ہی شیرِ مادر کی صورت میں مٹھاس چکھتے ہیں اور یہی ہماری پہلی غذا ہے۔‘‘گبسن کہتے ہیں ’’روایتی کھانوں میں توانائی بہت زیادہ ہوتی ہے، ان میں چکنائی اور مٹھاس کی مقدار بھی بہت زیادہ ہوئی ہے اس لیے اپنی خصوصیات کے اعتبار سے چاکلیٹ ایک مکمل روایتی غذا ہے۔‘‘ شاید یہی وجہ ہے کہ مزاج اور کھانے کے تعلق پر بحث کرنے والی تحقیقات چاکلیٹ کو غیر صحت بخش غذا قرار دیتی ہیں۔ مختلف تحقیقات کے نتائج سامنے آنے کے باوجود کھانے اور غذا کے مابین تعلق کا معاملہ ’’انڈا پہلے یا مرغی‘‘ جیسا قضیہ بن چکا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری ذہنی کیفیت کھانے کے انتخاب کا نتیجہ ہوتی ہے یا کھانے کا انتخاب ہمیں کسی کیفیت میں مبتلا کرتا ہے؟ یعنی ’’موڈ پہلے یا فوڈ‘‘حال ہیں میں سامنے آنے والی ریسرچ رپورٹس کے مطابق ’’پہلے فوڈ‘‘ والی بات درست ہے۔ امریکا میں یونی ورسٹی کے طلبا پر 2012میں ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق طلبا غیر صحت بخش کھانا کھانے کے دو سے تین دن بعد منفی ذہنی کیفیات کا شکار دکھائی دیے۔ 2013میں برطانیہ کے ایک ریسرچ جرنل میں بھی ایسی ہی ایک تحقیق شایع ہوئی جس میں یونی ورسٹی کے 281 طلبا کو 21دن کھانے سے متعلق اپنے تجربات قلم بند کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اس تحقیق کے مطابق پھل اور سبزیاں کھانے سے اگلے ہی دن طلبا میں مثبت ذہنی کیفیات کی نشان دہی ہوئی۔ پھلوں کے زیادہ مثبت اثرات مردوں پر ظاہر ہوئے جب کہ سبزیاں مردوخواتین کے لیے یکساں مفید ثابت ہوئیں۔ صحت بخش غذا آپ کو خوش رکھتی ہے یا ذہنی کیفیت پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے، اس کے واضح اسباب تو ابھی تک سامنے نہیں آئے ہیں لیکن ڈاکٹر گبسن کہتے ہیں ’’فرض کریں کہ صحت بخش غذا کھانے سے آپ کا موڈ اچھا ہوتا ہے تو اس اصول پر کاربند رہنے سے ایسا ہونے لگے گا۔‘‘ جذبات و احساسات اور کھانا پینا ہمارے معمول کا مستقل حصہ ہیں اس لیے ان کا آپس میں الجھ جانا غیر ممکن نہیں۔ اگرچہ تمام تر تحقیقی کاوشوں کے باوجود ہم ان دونوں کے مابین تعلق کے بارے میں بہت سے دل چسپ امکانات کا پتا لگا چکے ہیں لیکن یہ گرہ ابھی تک نہیں کُھلی کے ایک کی حدودکہاں پر ختم ہوتی ہیں اور دوسری کی کہاں سے شروع! ڈاکٹر گبسن کہتے ہیں’’ یہ جاننا آسان نہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ محض آپ کے احساسات ہیں جو آپ کو آئس کریم اور وہ سب کچھ جسے ہم غیر صحت بخش غذا کہتے ہیں،کھانے پر اکساتے ہیں ! اس بات کے بھی امکانات ہیںکہ ہم جو کچھ کھاتے ہیں اس کے لیے ہمارے جذبات ہی فیصلہ کُن ثابت ہوتے ہوں۔ بہر حال اس تعلق کو سمجھنے کے لیے انسان کو سوچتے رہنا ہوگا، کھائے بغیر تو ہم رہ نہیں سکتے، اس لیے سوچتے بھی رہیے اور کھاتے بھی رہیے۔‘‘

Courtesy Dunya Digest


متعلقہ خبریں