..پوشیدگی….پرسنل سپیس…. پرائیویسی

قومی آواز:- ٹورنٹو
Sunday, February 4, 2018

پرسنل سپیس
ہمیں پرسنل سپیس  کے بارے کبھی بتایا ہی نہیں جاتا۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جن کے بارے مجھے بات کرنا پسند نہیں ہوگا۔ وہ کچھ بھی ہوسکتی ہیں۔ کسی سے بہت ذاتی سوال کرنا پرسنل سپیس میں دراندازی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں کسی سے بھی ذاتی سوالات کرنا عام سی بات ہے۔ ‘شادی ہوگئی، شوہرکیا کرتا ہے، بچے کتنے ہیں۔۔اچھا ابھی بچہ نہیں ہوا۔۔ کیوں۔۔آپ مسلمان ہیں۔۔ کونسا فرقہ سے تعلق ہے۔۔ او آپ نماز نہیں پڑھتے۔۔ کیوں۔۔ یہ کسی دوسرے کی پرسنل سپیس کوتوڑنے والے سوالات ہیں۔ ہرانسان کوکسی وقت بلاشرکت غیرے کچھ سوچنے کا حق ملنا چاہئے۔ کیا اس پہ فرض ہے کہ وہ اپنا دکھ درد ، خوشی، راز، تکلیف، یا آئیڈیا ضروربتائے؟ کیا اسے کچھ دیرکے لئے اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا۔۔ سکون تواکیلے بیٹھ کے ہی ملے گا۔ ہرسوال کا جواب نہ دیں، تو آپ اکھڑ، بدمزاج اورمغرورکہلائے جائیں گے۔ ‘آپ نے میرے میسیج کا جواب نہیں دیا۔۔؟ آپ نے کال بیک کیوں نہیں کی۔۔؟ دوستی زیادہ اہم ہے یا زندگی کے دوسرے کام؟ یہ بھی پرسنل سپیس میں ڈاکہ ڈالنے کی ایک قسم ہے۔ فون یا گھرکی بیل ۔۔ دوتین بجا لینے کے بعد ہٹ جانا چاہئے، ہوسکتا ہے۔ وہ بندہ اپنے کسی پرسنل کام میں مصروف ہو۔۔ اسے سپیس دینا کہتے ہیں۔ اوردوسرے کی سپیس کا احترام کرنا۔۔ قبائلی، فیوڈل اورمشترکہ خاندانی نظام میں توپرسنل سپیس کا کوئی تصورہی نہیں ہوتا۔۔ ہربات ہرایک سے شئیر کرنی ضرور ہوتی ہے۔ کوئی بھی بندہ آپ سے ذاتی نوعیت کے سوالات کرسکتا ہے۔ ہمیں سماجی طورپرسکھایا جاتا ہے۔ الگ تھلگ رہنے والا آدمی اچھا نہیں ہوتا۔۔ کامیابی سمجھی جاتی ہے، کہ سارا خاندان اکھتا رہے۔۔۔الگ ہوکر رہنا ا بری بات ہے۔ بچوں کی بھی پرائیویسی ہوتی ہے۔ انہیں پرسنل سپیس دینی چاہئے۔ اسی طرح ماں باپ کی پرسنل سپیس ہوتی ہے۔ اجنبیوں سے بھی فاصلہ رکھنا سکھانا چاہئے۔۔ ہربات ہرکسی کونہیں بتانی چاہئے۔۔ عام طورپرگھریلو خواتین کی عادت ہوتی ہے۔ دکھ سکھ شئیر کرنے کے چکر میں کسی بھی دوسری خاتون کواپنی فیملی کی تمام باتیں بتا دینی۔۔ اپنا پرسنل سپیس قائم رکھنا اوربچوں کو اس کی تربیت دینا نئے معاشرتی نارمز میں شامل ہے۔۔
حسنین جمال کے کالم سے ماخوذ


متعلقہ خبریں