بالعموم مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کیلئیے کافروں کی چند خدمات۔ کراچی کی کوڑھ بستی ۔۔ اور خاتون ڈاکٹر روتھ فاؤ…

قومی آواز ٹورنٹو: ۔ 11 اگست ، 2019
ان تصاویر میں سے پہلی بلیک اینڈ وائٹ تصویر کراچی کی ایک کوڑھ بستی کی ہے۔۔ اور یہ خاتون ڈاکٹر روتھ فاؤ ہیں

پاکستان میں 1950 -1960  کی دہائ میں پاکستان خاص کر کراچی میں جذام یا کوڑھ کا مرض پھیلنا شروع ہوگیا تھا۔ کوڑھ ایک اچھوت مرض ہے جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے‘ جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے۔کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے‘ کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں‘ ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں۔یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا۔ مذہبی طبقے نے بھی اسے اللہ کا عذاب قرار دے دیا۔۔
چنانچہ جس انسان کو کوڑھ کا مرض لاحق ہو جاتا ، اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا ۔۔اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔
پاکستان میں 1960ء تک ہزاروں لوگ اس موذی مرض میں مبتلا ہوچکے تھے۔یہ مرض تیزی سے پھیل رہا تھا۔ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں‘ یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں‘ لوگ آنکھ‘ منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے‘ لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے۔ملک کے تقریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے بن چکے تھے‘ پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا ،چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے‘ سسک سسک کر آہستہ آہستہ جان دے دے یا پھر خود کشی کر لے
ان حالات میں ڈاکٹر روتھ فاؤ کو ایک ٹی وی پروگرام کے ذریعے اس بھیانک بیماری کا پتہ چلا تو انہوں نے انتہائ عجیب اور مشکل فیصلہ کر ڈالا
جی ہاں تیس سال کی انتہائی جاذب نظر اور توانائی سے بھر پور خاتون نے یورپ کی پرسکون اور پر آسائش زندگی کو چھوڑ کر پاکستان کا رخ کرلیا۔۔ زندگی کی خوبصورتیاں ، رعنائیوں او آسائشوں کو ٹھوکر مار کر ایک جدوجہد والی زندگی کا انتخاب کرنا ایک بہت بڑا فیصلہ تھا۔۔ لیکن روتھ فاؤ نے تن تنہا اس فیصلے پر عمل درآمد کیا اور پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خلاف جہاد شروع کر دیا۔۔
اس کے بعد وہ مستقل طور پر واپس اپنے وطن نہیں گئیں‘ انہوں نے پاکستان کے کوڑھیوں کے لیے اپنا ملک‘ اپنی جوانی‘ اپنا خاندان اور اپنی زندگی قربان کر دی۔انہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا۔کوڑھ کے مریضوں اور ان کے لواحقین نے اس فرشتہ صفت خاتون کو حیرت سے دیکھا کیونکہ اس وقت تک کوڑھ کو عذاب سمجھا جاتا تھا‘ لوگوں کا خیال تھا یہ گناہوں اور جرائم کی سزا ہے۔ یہ عظیم خاتون اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتی تھی اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھی۔جن کو ان کے سگے بھی چھوڑ گئے تھے۔ان کا جذبہ نیک اور نیت صاف تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ میں شفا دے دی۔وہ مریضوں کا علاج کرتیں اور کوڑھیوں کا کوڑھ ختم ہو جاتا۔اس دوران ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انھیں جوائن کر لیا‘ ان دونوں نے کراچی میں 1963ء میں میری لپریسی سینٹر بنایا اور مریضوں کی خدمت شروع کردی ۔ان دونوں نے پاکستانی ڈاکٹروں‘ سوشل ورکرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ٹریننگ کا آغاز بھی کر دیا۔یوں یہ سینٹر 1965ء تک ہسپتال کی شکل اختیار کر گیا‘انہوں نے جزام کے خلاف آگاہی کے لیے سوشل ایکشن پروگرام شروع کیا،ڈاکٹر کے دوستوں نے چندہ دیا لیکن اس کے باوجود ستر لاکھ روپے کم ہو گئے،وہ واپس جرمنی گئیں اور جھولی پھیلا کر کھڑی ہو گئیں۔جرمنی کے شہریوں نے ستر لاکھ روپے دے دیے اور یوں پاکستان میں جزام کے خلاف انقلاب آ گیا۔وہ پاکستان میں جزام کے سینٹر بناتی چلی گئیں یہاں تک کہ ان سینٹر کی تعداد 156 تک پہنچ گئی‘ ڈاکٹر نے اس دوران 60 ہزار سے زائد مریضوں کو زندگی دی۔یہ لوگ نہ صرف کوڑھ کے مرض سے صحت یاب ہو گئے بلکہ یہ لوگ عام انسانوں کی طرح زندگی بھی گزارنے لگے۔ ان کی کوششوں سے سندھ‘ پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے جزام ختم ہو گیا اور عالمی ادارہ صحت نے 1996ء میں پاکستان کو ’’لپریسی کنٹرولڈ‘‘ ملک قرار دے دیا۔ حکومت نے 1988ء میں ان کو پاکستان کی شہریت دے دی۔انہیں ہلال پاکستان‘ ستارہ قائداعظم‘ ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور نشان قائداعظم سے بھی نوازا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔جرمنی کی حکومت نے بھی انہیں آرڈر آف میرٹ سے نوازا۔ یہ تمام اعزازات‘ یہ تمام ایوارڈ بہت شاندار ہیں ۔ان کا نام ڈاکٹر روتھ فاؤ ہے۔ڈاکٹر روتھ کا عین جوانی میں جرمنی سے پاکستان آ جانا اور اپنی زندگی اجنبی ملک کے ایسے مریضوں پر خرچ کر دینا جنھیں ان کے اپنے خونی رشتے دار بھی چھوڑ جاتے ہیں واقعی کمال ہے۔ڈاکٹر روتھ اس ملک کے ہر اس شہری کی محسن ہے جو کوڑھ کا مریض تھا یا جس کا کوئی عزیز رشتے دار اس موذی مرض میں مبتلا تھایا جو اس موذی مرض کا شکار ہو سکتا تھا۔ یہ حقیقت ہے یہ خاتون‘ اس کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل پاکستان نہ آتے اور اپنی زندگی اور وسائل اس ملک میں خرچ نہ کرتے تو شاید ہمارے ملک کی سڑکوں اور گلیوں میں اس وقت لاکھوں کوڑھی پھر رہے ہوتے۔اور دنیا نے ہم پر اپنے دروازے بند کر دیے ہوتے‘ ہمارے ملک میں کوئی آتا اور نہ ہی ہم کسی دوسرے ملک جا سکتے۔۔۔
آج اس عظیم اور فرشتہ صفت خاتون کی دوسری برسی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ انکی اس عظیم قربانی اور جدوجہد کے بدلے میں اجرعظیم عطا فرمائے۔۔۔۔

Credits: Wah Dam Apna Facebook Page


متعلقہ خبریں