ہم دراصل اندر سے ایک تماشبین قوم بن چکے ہیں

قومی آواز:ٹورنٹو

حالات پر تبصرہ 20 جنوری ، 2019

ذوھیر عباس

Credits: Syed Moni
ہمارے ادارے اداروں کے پاس یرغمال ہیں ۔ ۔ہمیں معاشرہ سازی کا سیلقہ ہی نہیں آیا ۔۔نہ ادارے نہ شہری ہم کسی کی بھی ذہن سازی کرنے میں مکمل ناکام ہو چکے ۔۔طاقتور اپنے سے زیادہ طاقتور کے ہاتھوں خوفزدہ ہیں اور جو سب سے زیادہ طاقتور ہیں وہ دنیا کے بڑوں کے غلام ہیں۔۔
ملک کا حکمران طبقہ اشرافیہ کے ہاتھوں ہمیشہ بے بس رہا ہے ۔ ۔سب سے اونچی مسند پر بیٹھتے ہی سائیکی ہی بدل جاتی ہے ۔۔اردگرد پھرتے مستعد وردی پوش اور ہاتھ میں فائلیں اُٹھائے نوکر شاہی کے کارندے سب اچھا ہونے کی وعید سناتے ہیں ۔۔عام اور خاص کے درمیان ایک ایسی خلیج پیدا کر دی جاتی ہے کہ دونوں دنیائیں ہی الگ ہو جاتی ہیں ۔۔
کوئی واقعہ کوئی سانحہ وقتی طور پر تھوڑی سی بیداری پیدا کرتا ہے لیکن پھر وہی گھسے پٹے بیانات ۔۔ مذمت کرکے جان چھڑا لی جاتی ہے ۔۔ خوفزدہ عوام بھی کچھ دن کمزور انداز میں چیختی ہے پھر کام دھندے میں لگ جاتی ہے
بطور معاشرہ ہم فرسودہ ہو چکے ۔۔ ہر عنصر کولہو کا بیل بن چکا ۔ ۔ہر کوئی خاموش تماشائی بن چکا ۔۔ جو قومیں کسی نادیدہ غیر مرئی ہستیوں سے مدد کی بھیک مانگنے کی عادی ہوں وہاں صرف بندوقیں ہی ہماری نسلوں کو یتیم کرنے کے لیے کافی ہیں۔


متعلقہ خبریں