ہم سب

مبشر اکرم (ہم سب)
ادارے کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں
ریاست کا تخلیق کردہ بیانیہ گھر سے باہر پوری شدت سے موجود تھا۔
ہندوستان ہمارا دشمن تھا، ہندو بہت برے، تنگ ذہن اور سازشی لوگ تھے جو اپنے گھر بھی تنگ بناتے تھے، جبکہ مسلمان کشادہ دل تھے اور ان کے گھر بھی کھلے ہوتے تھے (مطالعہء پاکستان)، سکھوں اور ہندوؤں نے تخلیقِ پاکستان کے وقت مسلمانوں کو چن چن کر کاٹ مارا، جبکہ بٹوارہ کی لکیر کے اِس جانب، مسلمانوں نے اپنی حفاظت میں سکھوں اور ہندوؤں کو اس پار پہنچایا (مطالعہء پاکستان و عام فہم خیال تھا)، پاکستان کو اللہ نے سب کچھ دیا ہوا تھا (میری مٹی میں لعلِ یمن)، پاکستان اسلام کا قلعہ تھا اور مسلم دنیا کا رہنما تھا (اسلامی سربراہی کانفرنس 1974)، پاکستانی افواج دنیا کی بہادر ترین افواج تھیں جس میں ایک مسلمان سپاہی، دس ہندوؤں پر بھاری تھا اور اگر وہ مسلمان سپاہی مجھ جیسا نکما مسلمان نہ ہو، بلکہ محترم جنرل ضیاءالحق غازی شہید جیسا مسلمان ہو تو وہ سو ہندوؤں پر بھاری تھا (اے مردِ مجاہد جاگ ذرا، اب وقت شہادت ہے آیا)، پاکستانی قوم دنیا کی ذہین و محنتی ترین قوم تھی جس کے مقدر میں مسلم دنیا اور اس خطے کے لیے اک رہنما کردار ادا کرنا تھا (ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں)۔
غربت میں سسکتے، رینگتے، اپنی ہزاروں چھوٹی چھوٹی خواہشوں کا گلا گھونٹتے گھونٹتے اور شعور کے دروازے پر ٹکریں مارتے مارتے بلوغت کی جانب جانے کی کوئی بہت اچھی یادیں وابستہ نہیں۔ سنہ 1989 سے  پہلے، جماعت اسلامی، افغانستان سے ٹاواں ٹاواں مجاہدین ملکوال لے آتی، فارسی اور پشتو میں ان کے خطاب سنتے ہوئے میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے، سمجھ اک لفظ کی بھی نہیں آتی تھی۔ پھر جماعت اسلامی، سابقہ مجاہد ”میجر مست گل“ جو مبینہ طور پر حالیہ سمگلر بھی ہیں، کو بھی ملکوال لے کر آئی تو ان کے جلوس میں گلا پھاڑ پھاڑ کر ”اس سال کا نعرہ، کرش انڈیا“ لگانے والوں میں، میں بھی شامل تھا۔
کچھ بڑا ہوا تو اشفاق حسین صاحب، قدرت اللہ شہاب صاحب اور ممتاز مفتی صاحب کے روحانی بابے چمٹ گئے۔ اس سے پہلے حکایت والے، عنایت اللہ مرحوم کے سبز پوش بابے بھی سر پر کافی ناچ چکے تھے۔ پاکستان سے بہتر ملک کوئی نہ تھا۔ پاکستانیوں سے بہتر کوئی لوگ نہ تھے۔ پاکستانیت سے بہتر کوئی نظریہ نہ تھا۔ پاکستانی معاشرے سے بہتر اسلامی معاشرہ کُل کائنات میں نہ تھا۔
یہ 1990 کی دہائی کی شروعات تھی اور عاصمہ جہانگیر مرحومہ، آئی اے رحمٰن، فخر زمان اور دیگر خواتین و حضرات کے نام پاکستانی اردو اخبارات میں تسلسل سے آنے لگے، اور ان کی کہی باتیں اور اٹھائے ہوئے سوالات کے تحت، اخباری فتاویٰ کی بھرمار تھی کہ وہ غدار ہیں، گھٹیا ہیں، واہگہ بارڈر پر جا کر چراغ جلاتے ہیں، وہ پاکستان کے خلاف ہیں، وہ پاکستانی معاشرے کو ہندوانہ و مغربی کرنا چاہتے ہیں، وہ ہماری عورتوں کو فحاشی سکھاتے ہیں، وہ اسلام کے خلاف ہیں، وہ مسلمانوں کے خلاف ہیں۔
اس فتویٰ سازی میں نظریہ پاکستان کے اک خودساختہ لاہوری اخباری گروپ، جو کئی کئی ماہ اپنے کارکنان کو تنخواہیں ادا نہیں کرتا، سب سے آگے تھا۔ اردو کالم نگاروں کی اک بھرپور فوج تھی، جن کے ذمے اک ایسے نظریہء پاکستان کی ترویج تھی، جو اصل والی قراردادِ پاکستان سے نہ صرف ملتا نہ تھا، بلکہ شدید مخالف تھا۔
کبھی وطنیت تو کبھی مذہبیت کی تقدیس کے پردے کے پیچھے افراد اور گروہوں کی معیشت تھی۔اس چوہا دوڑ میں، میں بھی اک چوہا تھا۔ جو اصل پر نہیں، نقل پر زندہ تھا۔ کیوں نہ ہوتا جب نقل ہی اصل تھی؟


متعلقہ خبریں