*طلاق کیوں هوئی*

قومی آواز: 10 جولائی ، 2019

ناشر ۔ ذوھیر عباس

پچهلے سال کی بات هے _ ایک دوست گول بازار سرگودها شاپنگ کر رها تھا __ اُس کی بیٹی کا فون آیا کہ ابو آپکے داماد نے مجهے فارغ کر دیا _علیحدگی د ے دی هے __فورا آئیں اور مجهے لے جائیں _
بیٹی کی یہ بات سن کر وه دوست بائیک دوڑاتا گهر کو واپس چلا __ان هی سوچوں میں گم هو گا , راستے میں چلتی بائیک پر هارٹ اٹیک هوا __ بجلی کے پول سے ٹکرایا اور وهیں سڑک پر جان دے دی _
بظاهر یہ بات اتنی سی هے کہ هارٹ اٹیک هوا اور بنده فوت هو گیا _ وقت مقرر تها_ لیکن نہیں _میں نہیں مانتا_
کوئی بات تو تهی جو ایک اچهے بهلے صحت مند آدمی کی اچانک موت کا باعث بنی _ اِس میں کہیں نا کہیں تو انسانی غلطی نے بهی اپنا حصہ ڈالا هو گا _
علیحدگی کے کچهہ دن بعد میں بچی سے ملا اور پوچها کہ بی بی تین بچوں کیساتهہ خاوند نے جو تمہیں چهوڑ دیا __کیا بات هوئی تهی _تمہارا فسٹ کزن بهی تو تها_
اُس بیٹی نے جو بهی وجہ بتائی وه مجهے سمجهہ نہیں آئی _ الزامات کی ایک لمبی فہرست تهی _ لیکن وه صاحبزادی مجهے کہیں بهی یہ نا بتا سکی کہ معاملات کی بہتری کیلئ خود اُس نے کیا کیا _ ؟
ایک بات میں نے بطور خاص نوٹ کی کہ محترمہ کے هاتهہ میں ڈیڑهہ لاکهہ والا آئی فون تها _
مرحوم دوست میرے رشتے دار بهی تهے _ اُنکا سابقہ داماد اعلی تعلیم یافتہ اور ایک محترم ادارے میں سکول ٹیچر هے _ چند دن بعد میں بطور خاص اُسے ملنے گیا __ پوچها کہ جوان تم جو اتنی انتہا پر پہنچے _اپنے بچے تک چهوڑ دیے _کیا تمہیں بچے پیارے نا تهے _ هوا کیا تها _کس بات نے تمہیں اتنا مجبور کیا _
وه بولا کہ سر _ میری دو سالیاں هیں _دونوں اِنتہائی امیر گهروں میں بیاهی هوئی _ کوٹهیوں کاروں اور نوکر چاکروں والی _
جب بهی میری بیوی اپنی بہنوں کو مل کر آتی _ میرے گهر جهگڑا شروع هو جاتا _مجهے بات بات پر غریبی کے طعنے ملتے _ میں چالیس هزار ماهانہ کا ملازم هوں _ جتنا کر سکتا تها , اِنتہائی حد تک کیا لیکن اب بات برداشت سے باهر تهی _
اُس نے مزید کها که مجهے اپنی بیوی بہت پیاری تهی _ میرے پاس تین هزار والا موبائل هے _بیگم کو میں نے آئی فون لیکر دیا __پهر کار کا مطالبہ هوا __بنک لون سے کار لیکر دی _ پرانا فرج بیچ کر قسطوں پر فل سائز نیا فرج لیا _ پهر اے سی کا کہا گیا _ اے سی لیکر دیا __ اِس سب کے باوجود طعنے هی طعنے _ میں اپنی نظر میں هی حقیر بن چکا تها_
علیحدگی والے ماه بجلی کا بل تیس هزار آ گیا _چالیس هزار کل تنخواه میں سے میں کیا کرتا _ دس هزار تو صرف ماهانہ دودهہ کا بل بنتا تها _ اُوپر سے بیگم کی فضول کی باتیں _
میں پہلے هی بیگم کی پچهلی لامحدود خواهشات سے تنگ تها_ بالکل ناک میں دم آ چکا تها_ فوری جهگڑا اُس بل پر هوا __ اور بات اِس انتہا تک پہنچی _
یہ بات کرتے کرتے وه رو پڑا _
ساری بات سن کر میں نے اپنا سر جهکایا _اور گهر واپس آ گیا_اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں نے اپنی بیٹیوں کو __اپنے بیٹوں کو کم از کم خواهشات کیساتهہ زنده رهنا بتایا _
اس وقت وه علیحدگی یافتہ بیٹی اپنے شادی شده بهائی کے تین مرلہ مکان کے اوپر والے ایک کمرے میں ره رهی هے __
جب بجلی بند هو تو اِس کمرے میں بنده ایسے هو جاتا جیسے بهٹی میں دانے بهنتے هیں _ نا اوپر واش روم هے اور نا کچن _ بچے نیچے جائیں تو اُن کی ممانی تهپڑ لگا کر اوپر واپس بهگا دیتی هے _
گوری چٹی اور سرخ و سفید چهبیس سالہ لڑکی صرف ایک سال میں پچاس سال کی اماں نظر آتی هے _سنا هے کسی پرائیویٹ سکول میں نو دس هزار کی نوکری بهی شروع کر دی ہے
(کہانی حقیقت پر مبنی ہے ۔بہت سی بہنیں بہک جاتی ہیں کہانی تھوڑے فرق کے ساتھ سب کی ایک جیسی ہے خدارا سمجھداری سے کام لین اپنے گھر کو خود جنت بنائیں کسی کے بھی بہکاوے میں نا آئیں )