عید الفطر روزوں کی عید ہے، اسے روزوں کی عید ہی نظر آنا چاہیے۔

جاوید احمد غامدی

اختتام رمضان اور عید الفطر

ماہ رمضان کا اختتام عیدالفطر پر ہوتا ہے۔ ایک مہینے کے روزوں نے اہل اسلام کو اپنے ایمان اور اعمال کا جائزہ لینے کا موقع دیا ہے۔ جن خوش نصیبوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا ہے، انھوں نے اپنے دل کی کھیتی میں تقویٰ کی نعمت کی آبیاری کی ہے۔ انھیں موقع ملا تھا کہ وہ اپنی دین کے ساتھ وابستگی کو مزید گہرا کر لیں اور انھوں نے اسے ضائع نہیں کیا۔ یہ مہینا خدا کی کتاب کا مہینہ ہے۔ انھوں نے اس مہینے میں اس کی تلاوت کی ہے۔ اس سے یاددہانی حاصل کی ہے۔ اس کی تعلیمات کو اختیار کرنے کے عہد کی پھر سے تجدید کر لی ہے۔ لاریب، یہی لوگ اس کا استحقاق رکھتے ہیں کہ ان کی عید کو عید قرار دیا جائے۔

تہوار ہر قوم کی سماجی زندگی کا ایک اہم عنصر ہوتے ہیں۔ لیکن ان تہواروں کا پس منظر بالعموم اس دنیا سے وابستہ ہوتا ہے۔ تہوار کے دن دنیوی کامیابیوں یانعمتوں کے حصول کے مواقع ہوتے ہیں۔ لیکن اسلام کے دونوں تہوار خدا کے ساتھ بندے کے تعلق کی نسبت سے منائے جاتے ہیں۔ عیدالاضحی در حقیقت، خدا کی خاطر قربانی کے جذبے کا مظہر ہے او رعید الفطر رمضان یعنی اللہ کے لیے گزارے گئے مہینے کی عید ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ مسلمان اپنا یہ تہوار، اپنے اسلام اور ایمان کے شایان شان منائیں۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ اہل ایمان خوشی کے مواقع پر خوش نہیں ہوتے۔ وہ رونق اور ہنسی کھیل سے گریزاں رہتے ہیں۔ اور اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ انھیں خوش نہیں ہونا چاہیے یا انھیں ہنسی کھیل سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کا تقاضا صرف یہ ہے کہ انھیں ہرحال میں خدا کی قائم کردہ حدود کا پابند رہنا چاہیے۔ کوئی خوشی انھیں خدا کے احکام سے غافل نہ کر دے اور کسی ہنسی کھیل اور رونق میلے میں وہ ایسے مشغول نہ ہوں کہ نماز جیسی عبادت بھی نظر انداز ہو جائے۔

رمضان کا مہینا خدا کی خاص عبادت کا مہینا ہے۔ اس میں ہر آدمی پر تقوے کی ایک خاص کیفیت طاری رہتی ہے۔ بندۂ مومن اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کے ساتھ ایک خاص لگاؤ پیدا کر لیتا ہے۔ روزے کی بھوک پیاس اس کے دل کو دوسرے انسانوں کے لیے نرم کر دیتی ہے۔ مسلمانوں کی بڑی اکثریت پانچ وقت کی نمازیں بڑے اہتمام سے پڑھنے لگ جاتی ہے۔ غرض یہ کہ اہل ایمان جنت سے قریب اور جہنم سے دور ہوتے ہیں۔

لیکن چاند کے نظر آتے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کافور ہو گیا ہے۔ ٹی وی اور ریڈیو ہادم ایمان و عمل نشریات کا آغاز کر دیتے ہیں۔ یہ تو خیر وہ ادارے ہیں جو مغربی ذرائع ابلاغ سے مقابلے کے فساد میں مبتلا ہیں۔ ہمارے لوگ خود بھی رمضان کی کمائی کو ایک ہی شب میں گنوا دینے میں ہمہ تن مشغول ہو جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ جنت کی طرف رواں دواں تھے، انھوں نے واپسی کے لیے دوڑ لگا دی ہے۔

یہ مضمون آپ قومی آواز ٹورنٹو پر ملاحظہ فرمارہے ہیں۔

اس اعتبار سے دیکھیں تو عید کا چاند ایک بہت بڑی آزمایش ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اس آزمایش سے بچ نکلنے کے لیے ذہن کو تیار رکھا جائے اور جو کچھ رمضان میں کمایا ہے اس کی اچھی طرح حفاظت کی جائے۔ عید کی خریداری کافی پہلے کر لی جائے، تاکہ آخری عشرہ جس میں زیادہ سے زیادہ عبادت ہونی چاہیے، وہ بازار کی مسموم فضا میں بسر نہ ہو۔ عید کے موقع پر تحائف کے تبادلے میں آپس کے گلے شکوے تازہ ہو جاتے ہیں۔ یہ چیز چغلی اور غیبت کا باعث بنتی ہے۔ چنانچہ کوشش کرنی چاہیے کہ آدمی اپنے آپ کو گلے شکوے سے بلند رکھے۔ چاند رات کو لوگ دیر تک جاگتے رہتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فجر کی نماز میں اتنے نمازی بھی نہیں ہوتے، جتنے نمازی عام دنوں میں فجر کی نماز پڑھتے ہیں۔ کوشش کرنی چاہیے کہ عید سے متعلق زیادہ کاموں کو چاند رات پر نہ ٹالا جائے، تاکہ عید کی رات کو جلد سویا جا سکے۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی نمازیں غیر معمولی اہمیت اختیار کر لیتی ہیں جو اسی طرح کی کسی صورت حال میں آجائیں۔ چنانچہ انھیں پانے کی ضرور سعی کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ ایسی ہی نمازیں غیر معمولی اجر کا باعث بنیں گی۔ عید کی تیاری کرتے ہوئے غریب اعزہ اور نادار ہم سایوں کا بطور خاص خیال رکھیں۔ رمضان میں کی گئی معمولی نیکیاں بھی بڑے اجر کا باعث ہیں اور خدا کی راہ میں خرچ کرنا، بذات خود ایک بہت بڑی نیکی ہے۔

عید الفطر روزوں کی عید ہے، اسے روزوں کی عید ہی نظر آنا چاہیے۔


متعلقہ خبریں