“تیل نکلنے کے بعد”

قومی آواز: ٹورنٹو
طنزومزاح.. 15 اپریل ، 2019

“کتنے پیسے بھیجوں بیٹا؟” میں نے اپنی ریڑھی سے آلو اٹھا کر ہوا میں اچھالتے ہوئے پوچھا۔ دوسرے ہاتھ میں فون تھا جس پر میرا بیٹا مجھ سے بات کر رہا تھا۔
“ابو ایک سو روپے بھیجیں گے تو ہمیں ایک ماہ کے لیے کافی ہیں”، بیٹے نے جواب دیا۔
“ایک سو روپے کے کتنے ڈالرز بنتے ہیں؟” میں نے سوال کیا۔
“بیس ہزار ڈالرز ابو”، بیٹے نے جواب دیا۔

میں امریکہ سے بسلسلہ روزگار پاکستان آیا تھا۔ میں نے امریکہ سے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی کیا تھا لیکن پاکستان میں میری ڈگری بی اے کے برابر تھی اور یہاں ہر کوئی پی ایچ ڈی تھا۔ اس لیے نوکری نہ ملی تو سبزی کی ریڑھی لگا لی۔ میرا تعلق کیلیفورنیا سے ہے۔ پاکستان میں آیا تو پتہ چلا یہاں انگریزی زبان پر پابندی ہے۔ اس لیے مجھے اردو سنٹر میں داخلہ لے کر اردو سیکھنا پڑی۔ اس دوران مجھے بیروزگاری الاؤنس کے تحت ماہانہ اتنے پیسے مل جاتے کہ تین ماہ میں میری فیملی نے واشنگٹن میں اپنا ذاتی گھر خرید لیا۔
“بیٹا اتنے کم مت مانگا کرو۔ یہاں میں ماہانہ دو لاکھ روپے کما لیتا ہوں۔ ٹیکس ادا کر کے میرے پاس اس وقت تین کروڑ روپے اکٹھے ہو چکے ہیں۔ سارے بھیج دیتا ہوں”، میں نے کہا۔
“ابو ہمیں پیسے نہیں چاہییں۔ ہمیں نکالیں یہاں سے۔ نہیں رہنا ہم نے اس گندے ملک میں۔ ہمیں بھی پاکستان لے چلیں”، میرا بیٹا اپنا مستقبل پاکستان میں بنانے پر بضد تھا۔
“بیٹا تمہاری امریکی تعلیم یہاں کسی کام کی نہیں۔ تمہاری اردو ابھی اتنی اچھی نہیں کہ تمہیں یہاں کلرک کی نوکری بھی ملے۔ رشوت سفارش کا تو پاکستان میں تصور بھی نہیں۔ یہ پاکستانی ہم امریکیوں جیسے کرپٹ نہیں ہیں۔ اور ویسے بھی دنیا کی ٹاپ پانچ سو یونیورسٹییز ساری پاکستان میں ہیں۔ عالمی نمبر ون یونیورسٹی آف پھالیہ میں داخلے کے لیے تمہیں دوبارہ پیدا ہو کر آنا پڑے گا پاکستانی شہریت کے ساتھ۔
پاکستانی ڈگری کے بغیر تمہیں یہاں نوکری ملنا ممکن ہی نہیں۔ تم ایسا کرو یہاں کی کسی دیہی یونیورسٹی میں آن لائن اپلائی کرو۔ شاید داخلہ مل جائے!” میں نے مایوس لہجے میں کہا۔
“جی ابو۔ اچھا یاد آیا۔ امی کا کینسر اب لاعلاج ہو گیا ہے۔ یہاں کے نیشنل ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کے بورڈ نے کہا ہے کہ اب ان کا علاج پاکستان کے علاوہ دنیا میں کہیں نہیں ہو سکتا!” بیٹے نے پریشان ہو کر بتایا۔
“بیٹا تم فوراً ویزہ اپلائی کرو۔ یہاں علاج دوا سب مفت ہے۔ تم لوگ فوراً آ جاؤ۔ اچھا ابھی فون بند کرو، گاہک آیا ہے”، یہ کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔
میری ریڑھی دراصل ایک سنٹرلی ایئر کنڈیشنڈ کمپاؤنڈ میں ایک سٹال تھا جہاں پر سبزیاں پھل ڈبوں میں پیک کر کے دیے جاتے تھے۔ کمپاؤنڈ کی چھت سے لٹکی 7 ڈی سکرین پر خبر چل رہی تھی کہ کینیڈین وزیر اعظم کو بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر دورانِ تلاشی روک دیا گیا تھا۔
“بہت سخت قوانین ہیں پاکستان کے!” میں نے تاسف سے سوچا۔
اسی دوران کمپاؤنڈ میں ایک برطانوی بھکاری داخل ہوا۔ فوراً کمپاؤنڈ کے سنسر نے خود کار طریقے سے پولیس کو اطلاع کر دی اور بھکاری ابھی کمپاونڈ کے وسط میں نہ پہنچا تھا کہ باہر پنجاب پولیس کی پندرہ سے بیس ٹربو کاریں آ کر رکیں اور سیاہ وردیوں میں ملبوس لیزر گنز سے مسلح پنجاب پولیس کے بیس پچیس کمانڈوز اندر گھس آئے۔ انھوں نے لیزر ڈیٹیکٹرز سے بھکاری کی تلاشی لی اور غیر مسلح ہونے کی تصدیق کر کے گرفتار کر لیا۔ اگلے دو منٹ میں کمپاؤنڈ کو کلیئر قرار دے کر پنجاب پولیس غائب ہو گئی۔
اسی لمحے سکرین پر خبر آنے لگی کہ جڑانوالہ سبزی منڈی سے ایک بھکاری گرفتار کر لیا گیا۔ ساتھ ہی وزیراعظم کا بیان چلنے لگ گیا جس میں عوام سے اس غفلت پر معافی مانگی گئی اور وعدہ کیا گیا کہ اس بھکاری کو فوراً انگلینڈ کے حوالے کیا جائے گا اور انگلینڈ سے ہرجانہ لیا جائے گا۔
اگلی خبر میں بتایا جا رہا تھا کہ چین اور روس پاکستان سے آسان شرائط پر قرضہ لینا چاہ رہے ہیں لیکن پاکستان نے سابقہ قرضہ کی وصولی کے لیے چین اور روس سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے عوام پر لگائے ٹیکسوں میں اضافہ کریں۔
جس خبر پر مجھے زیادہ دکھ ہوا وہ میرے اپنے ملک کے بارے تھی۔ اسلحہ سازی پر پاکستان کی جانب سے عائد پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر پاکستان نے امریکہ پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

بشکریہ : افق کے پار


متعلقہ خبریں