بزرگان دین ہندوستان کا عظیم سرمایہ

قومی آواز نانوتہ دیوبند : ملک کی ممتاز درسگاہوں سے آئے علمائے کرام اور برگزیدہ شخصیات کی موجودگی میں مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی حیات پر ایک کتاب الامام الاکبر محمد قاسم النانوتویؒ کا اجرا عمل میں آیا۔ اس موقع پر اکابرین کو سننے کے لئے قرب و جوار سے بڑی تعداد میں لوگ آئے۔ حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی عربی سوانح حیات اجرا کے موقع پر منعقدہ نورانی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم مولانا محمد سالم قاسمی نے کہا کہ اسلام کا مجموعہ تین اجزا پر مشتمل ہے: شریعت، طریقت اور سیاست اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ میں خصوصی طور پر یہ تینوں چیزیں موجود تھیں۔ مولانا سالم نے کہا کہ بزرگ ملت کا عظیم سرمایہ ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابو القاسم بنارسی نے اپنے خطاب میں کہا کہ دارالعلوم دیوبند کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں مولانا کی شخصیت کو متعارف کراے کی کوشش نہیں کی گئی، لیکن ڈاکٹر اویس کی یہ کوشش اس کمی کو دور کرنے میں کارگر ثابت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں انگریزوں کے ذریعے اسلام کو دفن کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس پر قدغن لگانے کا کام مولانا محمد قاسم نے کیا تھا۔ اسلام دشمن طاقتوں کا منصوبہ یہ تھا کہ اس ملک سے اسلامی اقدار کو ختم کردیا جائے مگر علماء نے علم ، قلم اور عمل سے اس منصوبے کا ناکام ہی نہیں کیا بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی اس ملک میں ححفاظت بھی کی۔ دہلی سے تشریف لائے مفسر قرآن مولانا جمال الدین نے علماء سے اپیل کی کہ وہ میدان عمل میں اتر کر حجۃ الاسلام کی تحریک کو آگے بڑھائیں ۔ مفسر قرآن مولانا جمال الدین نے کہا کہ مولانا محمد قاسم کی نسبت دنیا کے کونے کونے میں موجود ہے، انہوں نے کہا کہ علماء کا ماضی شاندار رہا ہے اور یہ تاریخ بتاتی ہے کہ کم اجرت اور پریشانیاں اٹھانے کے باوجود علماء نے اس سرزمین کی آبیاری کی۔ معروف اسکالر پروفیسر اختر الواسع نے اتحاد ملت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امت پہلے ہی خارجی مسائل سے دوچار ہے، اس وقت ملت میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جو لوگ مسلکی اختلاف پھیلانے والے ہیں وہ کسی بھی مسلک کے ذمہ دار نہیں ہوسکتے، خاص طور پر وہ اپنے مذہب کے بھی وفادار نہیں ہوسکتے۔ اخترالواسع نے کہا کہ مولانا قاسم نانوتویؒ کا علم لا محدود تھا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا محمد قاسمؒ کی سوانح اردو میں سب سے پہلے مولانا یعقوب نانوتوی نے لکھی اور خوش آئند بات یہ ہے کہ عربی کی پہلی سوانح اسی دیار کے مولانا اویس نے لکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے علماء کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دنیا کو بتا دیں کہ اسلام کا پیغام کیا ہے ، انہوں نے کہا کہ جس کے ہاتھ میں قرآن ہوتا ہے اس کے ہاتھ میں بم نہیں ہوسکتا۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو کے گروپ ایڈیٹر عزیز برنی نے کہا کہ فرقہ وارانہ اتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ حکومت اور اس ملک میں رہنے والی تمام اقوام کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر دارالعلوم دیوبند نہ ہوتا تو ملک کو آزادی نصیب نہ ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ اسی تاریخی سرزمین سے آزادی کا بگل بجا تھا اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی تحریک نے ملک کو غلامی سے نجات دلانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ عزیز برنی کے کہا کہ یہ مکمل آزادی نہیں ہے ذہنی طور پر آج بھی ہم غلام ہیں، آج پھر اسی فریضے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر مولانا محمد کلیم صدیقی، مولنا احترام کانپوری، مولانا زکریا صدیقی، مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی کے علاوہ دیگر علماء نے بھی خطاب کیا۔ پروگرام کا آغاز دارالعلوم کے استاد قاری عبد الرؤف کی تلاوت اور احسان محسن کی نعت پاک سے ہوا۔ پروگرام کی نظامت مولانا اسامہ صدیقی نے کی اور مولانا زکریا صدیقی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا ۔۔۔ بشکریہ روزنامہ راشٹریہ سہارا

 


متعلقہ خبریں