کیا روس واقعی کورونا وائرس کی ویکسین تیار کر چکا ہے

کیا روس واقعی کورونا وائرس کی ویکسین تیار کر چکا ہے
ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی

قومی آواز :ٹورنٹو،اگست 28، 2020
آپ نے شاید پچھلے دنوں یہ خبر پڑھی یا سنی ہو گی کہ روس کے صدر پیوٹن نے یہ اعلان کیا ہے کہ روس کورونا وائرس کی ویکسین بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے اور حکومت نے اس ویکسین کو عوام پر استعمال کرنے کی منظوری دے دی ہے- صدر پیوٹن نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ ویکسین ان کی بیٹی نے بھی استعمال کی ہے اور وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں-
کسی بھی دوا کے بارے میں اگر کوئی مشہور شخصیت یہ دعویٰ کرے کہ یہ دوا اس نے یا اس کے اہل خانہ نے استعمال کی ہے اور یہ دوا کارگر ہے تو ہمارے کان فوراً کھڑے ہو جانے چاہییں کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے- اگر دوا واقعی کارگر ہے تو پھر اسے کسی مشہور شخصیت کی توثیق کی ضرورت نہیں ہوتی-
:دواؤں کی سٹڈی کے پروٹوکولز
دواؤں کے کارگر ہونے کا فیصلہ عموماً ڈبل بلائنڈ سٹڈیز کے نتائج دیکھ کر کیا جاتا ہے- ان سٹڈیز میں ہزاروں مریضوں کو یا تو وہ دوا دی جاتی ہے جس کی سٹڈی مقصود ہو یا پھر پلاسیبو دوا دی جاتی ہے جو دیکھنے میں بالکل دوا معلوم ہوتی ہے لیکن اس میں دوا کے  رد عمل ظاہر کرنے کی کوئی صلاحیت نہیں  ہوتی ہے یعنی کوئی ایسی چیز جس کا جسم پر کوئی اثر نہیں ہوتا- مریضوں اور ڈاکٹروں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کس مریض کو اصل دوا دی جا رہی ہے اور کس کو پلاسیبو- پھر کئی ماہ یا کئی سال تک ان تمام مریضوں کا میڈیکل ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے اور اس ڈیٹا کے تجزیے سے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ جس دوا کی سٹڈی کی جا رہی ہے وہ دوا پلاسیبو کے مقابلے میں کس قدر زیادہ پر اثر ہے
:جانوروں پر تجربات
نئی دواؤں کو ٹیسٹ کرنے کے لیے میڈٰیکل فیلڈ میں طے شدہ پروٹوکولز استعمال کیے جاتے ہیں- جب کسی وائرس کے خلاف کوئی نئی ویکسین تیار کی جاتی ہے تو سب سے پہلے اسے جانوروں پر ٹیسٹ کیا جاتا ہے- جانوروں پر ویکسین کا ٹیسٹ اس قدر آسان نہیں جتنا بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے- موجودہ کورونا وائرس جانوروں پر حملہ نہیں کرتا اس لیے جانوروں پر ٹیسٹ کرنے کے لیے پہلے جانوروں میں جینیاتی انجینیئرنگ سے وہ خلیے اور وہ ریسیپٹرز پیدا کیے جاتے ہیں جن پر کورونا وائرس حملہ کر سکے- اس کے بعد ان جانوروں کے دو گروپ بنائے جاتے ہیں جن میں سے ایک گروپ کو یہ ویکسین لگائی جاتی ہے اور دوسرے گروپ کے جانوروں کو ویکسین نہیں لگائی جاتی- پھر ان دونوں گروپوں کے جانوروں کو کورونا وائرس لگایا جاتا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ یہ ویکسین وائرس کے خلاف مزاحمت پیدا کر رہا ہے یا نہیں- اگر ویکسین واقعی کارگر ہو تو جس گروپ کے جانوروں کو ویکسین دی گئی ہو ان میں سے اکثر جانوروں کو وائرس سے بیماری نہیں لگتی جبکہ جس گروپ کے جانوروں کو ویکسین نہیں دی گئی ہو ان میں سے اکثر جانور بیمار ہو جاتے ہیں
:انسانوں پر تجربات
اگر ویکسین کے جانوروں پر کیے گئے تجربات کامیاب رہے ہوں تو ان تجربات کے نتائج حکومتی اداروں کو پیش کیے جاتے ہیں اور انسانوں پر تجربات کی اجازت طلب کی جاتی ہے- انسانوں پر ویکسین کے تجربات تین مرحلوں میں کیے جاتے ہیں-
:پہلا مرحلہ
پہلے مرحلے میں ویکسین چند گنے چنے افراد کو دی جاتی ہے- اس مرحلے میں تجربات کا مقصد صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ویکسین انسانوں کے لیے نقصان دہ تو نہیں ہے- چونکہ جانوروں کے اندرونی نظام انسانوں سے کچھ مختلف ہوتے ہیں اس لیے اس بات کا امکان یقیناً ہوتا ہے کہ جو ویکسین جانوروں میں وائرس کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے میں کامیاب رہی ہو انسانوں میں وہی وائرس نقصان دہ یا جان لیوا ثابت ہو- اس لیے اس سٹیج میں بہت کم لوگوں (عموماً تیس کے لگ بھگ) کو ویکسین دی جاتی ہے، یہ یقینی بنایا جاتا ہے کہ صرف صحت مند اور نوجوان لوگوں کو اس سٹڈٰی میں شامل کیا جائے- اس سٹڈی کے دوران شرکاء کو مسلسل نگہداشت میں رکھا جاتا ہے- اگر اس سٹڈی میں یہ ثابت ہو جائے کہ یہ ویکسین انسانوں کے لیے محفوظ ہے تب ہی حکومت اگلے مرحلے کی منظوری دیتی ہے
:دوسرا مرحلہ
دوسرے مرحلے میں یہ سٹڈی کیا جاتا ہے کہ ویکسین واقعی وائرس کے خلاف مزاحمت پیدا کرتی ہے یا نہیں- اس سٹیج میں بھی شرکا کی تعداد نسبتاً کم ہوتی ہے اور عموماً سو سے تین سو تک شرکاء پر ویکسین ٹیسٹ کی جاتی ہے- یہ شرکاء بھی نوجوان اور صحت مند لوگ ہوتے ہیں جو ویکسین کی کمی یا زیادتی کو یا ویکسین کے ممکنہ سائیڈ ایفیکٹس کو برداشت کر سکتے ہیں- اس سٹیج میں مختلف شرکاء کو دوا کی مختلف مقدار دی جاتی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ویکسین کی کتنی مقدار لوگوں کی اکثریت میں مزاحمت پیدا کرتی ہے اور عوام کو ضرورت سے کم یا ضرورت سے زیادہ ویکسین نہ دی جائے- ان شرکاء میں ویکسین کے کسی بھی ممکنہ سائیڈ ایفیکٹس کا تفصیل سے جائزہ لیا جاتا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ویکسین کے فوائد ان سائیڈ ایفیکٹس سے کہیں زیادہ ہیں
:تیسرا مرحلہ
اگر دوسرے مرحلے کے مکمل ہونے کے بعد یہ ثابت ہو جائے کہ ویکسین وائرس کے خلاف مناسب مدافعت پیدا کرتی ہے اور اس کے سائیڈ ایفیکٹ نسبتاً کم ہیں تو حکومت ویکسین کی ٹیسٹ کے تیسرے مرحلے کی منظوری دیتی ہے- اس مرحلے میں ویکیسن کو ہزاروں افراد پر آزمایا جاتا ہے- اس ٹیسٹ کے شرکا میں ہر عمر کے لوگ ہوتے ہیں اور صحت مند افراد کے علاوہ ایسے افراد بھی شامل ہوتے ہیں جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو- یہ تمام شرکاء ایسے ماحول میں ہوتے ہیں جہاں وائرس موجود ہوتا ہے- چنانچہ اس ٹیسٹ میں نہ صرف یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ مختلف عمر، صحت، اور مدافعتی نظام کے لوگوں پر ویکسین کس قدر کارگر ہوتا ہے بلکہ یہ بھی جانچا جاتا ہے کہ مختلف حالات میں اس ویکسین کے سائیڈ ایفیکٹس کتنے خطرناک ہوتے ہیں-
:دوا کی منظوری
اگر ویکسین تیسرے مرحلے میں بھی کامیاب رہی ہو یعنی اسے استعمال کرنے والے لوگوں میں سے بیشتر میں وائرس بیماری پیدا کرنے کے قابل نہ ہو اور پلاسیبو دوا لینے والوں کے مقابلے میں ویکسین لینے والے افراد میں بیماری کی شرح بہت کم رہی ہو، اس دوا کے کوئی نئے سائیڈ ایفیکٹ ظاہر نہ ہوئے ہوں، اور ویکسین ہر عمر، طبقے، اور مدافعتی نظام کے حامل لوگوں کے لیے عمومی طور پر فائدہ مند رہی ہو تب حکومت اس دوا کے عام استعمال کی منظوری دیتی ہے- یہ منظوری حاصل کرنے کے لیے دوا ساز کمپنیوں کو بہت سا ڈیٹا حکومت کو فراہم کرنا ہوتا ہے، یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ تمام مرحلوں میں ٹیسٹس کے دوران درست پروٹوکولز استعمال کیے گئے تھے (مثلاً کسی مریض کو یہ علم نہیں تھا کہ اسے ویکسین دی جا رہی ہے یا پلاسیبو، کسی ڈاکٹر کو یہ علم نہیں تھا کہ کس مریض کو ویکسین دی جا رہی ہے اور کس کو پلاسیبو، ٹیسٹس کے نتائج تفصیل کے ساتھ مرتب کیے گئے اور ان میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا وغیرہ) اور حکومتی ایجینسی کے کئی سوالات کے جواب فراہم کرنا ہوتے ہیں- اس کے بعد کہیں جا کر حکومتی ایجینسی اس ویکسین کو سرٹیفائی کرتی ہے یعنی اس بات کا سرٹیفیکیٹ جاری کرتی ہے کہ اس ویکسین کو عمومی استعمال کی اجازت دی جا رہی ہے
:روس کی ویکسین
ویکسین کے ٹیسٹس اور اس کی منظوری کے پروٹوکولز کو سمجھنے کے بعد اب ہم روس کی اس ویکسین پر ایک نظر ڈالتے ہیں جس کی ‘کامیابی’ کا اعلان صدر پیوٹن نے کیا- خود صدر پیوٹن کے بیان اور روسی حکومت کے پریس ریلیز کے مطابق اس ویکسین کو اب تک صرف 79 لوگوں پر ٹیسٹ کیا گیا ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ویکسین ابھی صرف ٹیسٹ کے پہلے مرحلے سے گزری ہے اور اس وقت ٹیسٹ کے دوسرے مرحلے میں ہے- دوسرے لفظوں میں یہ ویکسین کسی طور پر عام استعمال کی منظوری کے قابل نہیں ہے- اس کے باوجود صدر پیوٹن نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس ویکسین کو عام استعمال کی منظوری دے دی گئی ہے- ان حالات میں اس دعوے کو حکومتی سطح پر دھوکہ بازی اور فراڈ نہ سمجھا جائے تو اور کیا سمجھا جائے؟
کچھ ماہرین کے مطابق یہ وائرس موجودہ کورونا وائرس یعنی سارس- کوو٢ کے لیے تیار نہیں کی گئی بلکہ اس سے ملتے جلتے وائرس ایڈنووائرسز کو استعمال کر کے تیار کی گئی ہے- روس کے سائنس دانوں نے ایڈنووائرس کے جینز کو تبدیل کر کے اس میں وہی پروٹین پیدا کی ہے جو سارس- کوو٢ کی اسپائیکس میں ہوتی ہے- اس طرح اس بات کا امکان تو ہے کہ یہ ویکسین سارس- کوو٢ کے خلاف بھی اینٹی باڈیز پیدا کرے گی- لیکن جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، جب تک اس ویکسین کے وسیع ٹرائل نہ ہوں تب تک ہمیں یہ معلوم نہیں ہو گا کہ یہ ویکسین سارس- کوو٢ کے خلاف بھی اینٹی باڈیز پیدا کرے گی یا نہیں-
جس کمپنی کو یہ ویکسین بنانے کا اجازت نامہ جاری کیا گیا ہے اس کی اپنی ویب سائٹ کے مطابق اس ویکسین کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل اسی ماہ یعنی اگست 2020 میں شروع کیے گئے ہیں جو روس کے علاوہ عرب امارات، سعودی عرب، برازیل اور میکسیکو میں کیے جا رہے ہیں- ایسے ٹرائل کو مکمل ہونے میں کم از کم چھ ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے- چنانچہ ہم اعتماد سے یہ کہہ سکتے ہی کہ روس کی یہ ویکسین ابھی عوام میں استعمال کے لیے تیار نہیں ہے- امریکہ اور برطانیہ میں کئی ویکسینز اس وقت فیز تھری کے ٹرائل میں ہیں اور ان کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں- زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ برطانیہ کی ویکسین اس وقت فیز تھری ٹرائل میں سب سے آگے ہے اور اس کے نتائج بھی باقی تمام ٹرائلز کی نسبت اچھے ہیں- اس لیے زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ موجودہ کورونا وائرس کے خلاف دنیا میں سب سے پہلی ویکسین برطانوی ہو گی

سہیل افضل کی وال سے اقتباس

اوریجنل آرٹیکل کا لنک

COURTESY:

https://www.sciencemag.org/news/2020/08/russia-s-approval-covid-19-vaccine-less-meets-press-release?fbclid=IwAR0f-154jB3rn_0f6X_DMsPj_gOcYEspYH8Uj2zyufVJBqyof1ql_hIDlGU


متعلقہ خبریں