…..ڈاکٹر یارجان بلوچ لیاری سے”خلا” تک کا سفر

Photo Credits: Independent Urdu

Courtesy : Naeem Khattak’s Facebook Wall

ناشر :ذوھیر عباس

کراچی کے پوش ایریا کلفٹن میں واقع ایک اعلیٰ معیار کے مشہور اسکول/کالج کی پرنسپل صاحبہ بہت ہی اسمارٹ اور اعلیٰ تعلیمیافتہ خاتون تھیں۔
ایک دن داخلہ لینے کے متمنی جب ایک لڑکے نے (اچھے نمبروں سے پاس) میٹرک کا سرٹیفکٹ اور دیگر کاغذات خوش رو چہرے کے ساتھ پیش کئے تو لڑکے کے والد نے بتایا وہ اپنے اسی لڑکے کو اس اسکول میں داخل کرانے آئے ہیں۔
میڈم نے صرف ایک سوال کیا: “آپ کہاں سے آئے ہیں؟”

جب میڈیم کو پتہ چلا وہ بلیدہ (بلوچستان) کے ہیں اور اب لیاری میں رہتے ہیں اور وہیں سے آئے ہیں تو ان کی طرف دیکھ کر کہنے لگیں:
“دیکھیں! یہاں وقت ضائع نہ کریں۔ جہاں سے آپ آئے ہیں وہیں جاکر کھیتی باڑی کریں اور سکون کی زندگی گزاریں!”۔
یہ سن کر باپ بیٹا خاموشی کے ساتھ اس کمرے سے نکلے۔ باپ نے بیٹے کی طرف یوں دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ میں نے پہلے کہا ہمیں یہاں نہیں آنا چائیے تھا۔

جناب! یہ تو کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ آج وہی لڑکا انگلستان کے کیمبرج یونیورسٹی میں نہ صرف ایک استاد ہے بلکہ خلائی سائنس سے وابستہ پہلا پاکستانی نوعمر سینئر ریسرچ سائنٹسٹ ہے!!!

ڈاکٹر یارجان عبدالصمد 20 مارچ 1986 کو کیچ مکران (بلیدہ) میں پیدا ہوئے۔ پرائمری تعلیم کا مرحلہ وہیں طے کیا پھر لیاری آکر روز ایجوکیشنل سوسائٹی کے وائٹ روز اسکول بغدادی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ کلفٹن کی خوشگوار فضا میں مزید تعلیم کا حصول ممکن نہیں ہوا تو ہمت نہیں ہاری۔ علم کی جستجو انہیں ڈی جے سائنس کالج اور پھر کے پی کے میں غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ آف انجینئیرنگ سائنسز اینڈ ٹیکنولوجی تک لے گئی جہاں قابل اور مشفق اساتذہ کی نگرانی میں ان کی ذہانت اور صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں۔

ان کی ابھرتی ہوئی صلاحیتوں کو بھانپ کر انہیں اسکالرشپ کے ساتھ امریکہ بھیجاگیا۔ ماسٹرز کے مراحل طے کرکے انہوں نے ٹیکنولوجی کے شعبہ میں امریکہ سے پی ایچ ڈی مکمل کی۔ ایم آئی ٹی یونیورسٹی میں انہوں نے عملی طور پر جاپان اور جرمنی کے ٹیکنیکل ماہرین کے ساتھ مل کر نہ صرف خلائی سائنس کے شعبہ میں اپنی استعداد بڑھائی بلکہ اس سرکل میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ گو کہ وہ ابھی نوجوان ہی ہیں لیکن اس عمر میں وہ کیمبرج یونیورسٹی یوکے میں سینئیر ریسرچ سائنٹسٹ کی حیثیت سے ٹیکنولوجی پڑھاتے ہیں اورآجکل (اسپیس بیسڈ پراجیکٹس) سے منسلک ہیں۔

ڈاکٹر یارجان بلوچ لیاری سے نکل کر “خلا” کے قریب ہی پہنچ گئے ہیں لیکن یہاں سے اپنا رابطہ برقرار رکھا ہے۔ خاص طور پر وائٹ روز اسکول کے منتظمین۔ ٹیچرز اور اپنے دوستوں کے ایک حلقہ سے ان کا ناطہ جڑا رہا۔

دو دن پہلے روز ایجوکیشنل سوسائٹی کے ڈائرکٹر انور علی بھٹی نے اپنے سابق طالبعلم یارجان بلوچ کے ساتھ ایک بہت ہی حسین شام منائی۔ اس دلفریب تقریب میں ڈاکٹر صاحب تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک کیمبرج یونیورسٹی یو کے سے آن لائن رہے۔ پہلے تو بھٹی صاحب۔ میڈم نجمہ۔ سابقہ ٹیچرز سر تبسم۔ سر ماجد اور اپنے کئی کلاس فیلوز کی باتیں سنتے رہے اور پھر محبت اور اپنائیت سے اپنے اسکول کے یادگار لمحات کو خوشی سے لبریز چہرے کے ساتھ ان سب سے شئیر کیا۔

ہم بھی وہاں موجود تھے۔ ڈاکٹر یارجان بلوچ کی باتیں ہم نے بھی سنیں۔ سوچ رہے تھے سائنسدان قسم کے آدمی ہیں اور اب “آسمانوں میں” رہتے ہیں اس لئے جو بات کریں گے وہ اول تو فلسفہ اور سائنسی فارمولوں پر مبنی ہوگی اور پھر انداز بھی کچھ “شاہانہ” قسم کا ہوگا لیکن یقین جانئیے اس نوجوان کو ہم نے خلا میں نہیں زمین ہی پر پایا۔ نرم لہجہ۔ سادہ الفاظ۔ انکساری کا مظاہرہ۔ یہ سب ان کے اچھے کردار کی نشانیاں تھیں۔

باتوں باتوں میں انہوں نے اپنی کامیابی (گرچہ وہ آخر تک انکساری سے کام لیتے رہے کہ ابھی تو ان کا علمی سفر شروع ہوا ہے) کو مسلسل جدوجہد۔ آگے بڑھنے کے عزم و ہمت اور ذہن میں منزل کے تعین سے جا ملالیا لیکن ہمارا خیال ہے ان کے چہرے پر ہروقت جو مسکراہٹ ہمیں نظر آئی یہی وہ راز ہے جو ان کی خوداعتمادی کی عکاسی کرتی ہے یہی وہ کنجی ہے جس نے ایک غریب اور پسماندہ ماحول میں پلنے والے ایک باہمت نوجوان کے لئے علم و آگہی کے تمام دروازے کھول دئے۔ ہمارے سب نوجوانوں کو اپنی زندگی کو بامقصد بنانے اور آگے بڑھنے کے لئے اسی کنجی کی کھوج لگانی ہے اور یہ ہی قومی آواز ہے۔