دیر سے پہنچنے کی عادت پر قابو پایا جاسکتا ہے

قومی آواز کراچی ۔ کسی بھی ملاقات میں طے شدہ وقت سے دیر سے پہنچنا معاشی طور پر کس قدر نقصان دہ ہوسکتا ہے، اس کا اندازہ2002میں یو ایس ٹوڈے میں شائع ہونے والے ایک تجزیاتی مضمون سے کیا جاسکتا ہے۔ اس مضمون میں سٹی گروپ کے اس وقت کے سی ای او سینفورڈ ویل کی مقررہ وقت سے پندرہ منٹ دیر سے آمد کو کمپنی کیلئے سوا 4ہزار ڈالرز کے نقصان کے برابر قرار دیا گیا تھا۔ یہ اعداد و شمار آج سے تیرہ برس قبل کے ہیں۔ اگر آج کے حساب سے اندازہ لگایا جائے تو یہ رقم لاکھوں میں جا پہنچے گی۔
سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے مالیاتی ادارے کا سی ای او کسی بھی ملاقات میں ایک دو بھی نہیں بلکہ پندرہ منٹ دیر سے کیوں پہنچے گا؟ اس سوال کا جواب تو خود سینفورڈ ویل ہی دے سکتے ہیں تاہم عام افراد کے معاملے میں بھی یہ تبصرہ غیر معمولی ہرگز نہ ہوگا کہ لوگ عادتاً دیر سے آتے ہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ دو تہائی امریکی دن بھر میں ایک بار لازماً یہ جملہ دہراتے ہیں کہ ’’سوری آئی ایم لیٹ‘‘۔ اس معذرت خواہانہ جملے کے ساتھ جو وجوہات بیان کی جاتی ہیں یا دل میں عذر تراشے جاتے ہیں، وہ مندرجہ ذیل ہیں:
کچھ کے خیال میں وقت مقررہ سے قبل پہنچنے کی صورت میں صرف وقت ضائع ہوتا ہے کیونکہ ملاقات کے انتظار میں اگر کوئی کام شروع کیا جائے تو وہ کام مکمل نہیں ہونے پاتا اور اصل ملاقات کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔
ان افراد کو یہ بہت برا لگتا ہے کہ یہ انتظار میں ٹہل رہے ہوں اور دوسرے انہیں عجیب عجیب نگاہوں سے دیکھ رہے ہوں۔
کچھ اپنا وقت بے قیمتی سمجھتے ہیں اور اسے انتظار میں ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔
یہ تمام وجوہات عام افراد تو جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں تاہم کامیاب افراد کی رائے میں دیر سے آنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ جس طرح کچھ افراد کو وقت مقررہ کے بعد آتے ہوئے شرم آتی ہے، اسی طرح کچھ لوگوں کو وقت مقررہ سے قبل آنے سے شرم آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثریت کو وقت مقررہ سے قبل پہنچنے کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ اگر آپ کامیاب پیشہ ور انسان بننا چاہتے ہیں تو ڈیل کمپیوٹر کے سی ای او مائیکل ڈیل کے فلسفے کو یاد رکھیں۔ مائیکل ہمیشہ مقررہ وقت سے قبل پہنچ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح انہیں شرکائے محفل کے مزاج کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ وہ اصل صورتحال کو آسانی سے سمجھ لیتے ہیں۔ اصل ملاقات سے قبل غیر رسمی ماحول میں بات چیت کی وجہ سے فریقین کیلئے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو، مزاج کو جان سکیں۔
اس کے علاوہ اگر یہ امر ذہن میں رکھا جائے کہ ملاقات سے قبل ، ملاقات کے انتظار میں گزارایا گیا وقت ضائع نہیں ہوتا بلکہ یہ ملاقات کو زیادہ پر اثر اور فریقوں کو ملاقات کیلئے ذہنی طور پر تیار کرنے میں مددگار ہوتا ہے تو ایسے میں دیر سے پہنچنے کی عادت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔