لڑکیوں کو لفنگے کیوں اچھے لگتے ہیں؟

لڑکیوں کو لفنگے کیوں اچھے لگتے ہیں؟

تحریر: عبدالعزیز خان

لوگ اکژ یہ پوچھتے ہیں کہ پاکستان کے حالات کیسے ٹھیک کیا جائیں۔ کیا جمہوریت لائی جائے یا آمریت؟ کیا عمران خان کو ووٹ ڈالا جائے یا نواز شریف کو؟ میرے پاس ایک سادہ سی تجویز ہے مگر اہل ثقافت برا مان جائیں گے۔ اس سے پہلے کہ میں یہ تجویز پیش کروں ایک کہانی سنانا چاہتا ہوں:

جب میں ١٩٩٦ء میں کینیڈا پہنچا تو انٹرنیٹ ایجاد ہوچکا تھا مگر یہ بہت نیا تھا۔ آج ویب سایٹس کی تعداد تقریباً ١٥ ارب تک پہنچ چکی ہے مگر اس وقت تمام ویب سائٹس کی کل تعداد ایک لاکھ سے بھی کم ہوا کرتی تھی۔گوگل اور فیس بک کا وجود نہ تھا اور لائیکوس سب سے مقبول سرچ انجن ہوا کرتا تھا۔ یہ ایک پیج کھولنے میں تین منٹ لگا دیتا تھا۔
انٹرنیٹ کی رفتار اتنی سست ہوتی تھی کہ ویڈیو تو بہت دور کی بات ہے ایک تصویر کےڈاؤن لوڈ ہونے کے لیے بھی خاصا انتظار کرنا پڑتا تھا۔

انٹرنیٹ کے ایجاد ہونے سے کمپیوٹروں کی فروخت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ دوکانوں میں ان کے آرڈر پہلے سے دینا پڑتے تھے۔ اس سے پہلے کمپیوٹر ایسی چیز نہیں تھی جس کی تھوک کے حساب سے خروید و فروخت ہوتی ہو۔ دفتری ضروریات یا تعلیم کے علاوہ کمپیوٹر کسی عام آدمی کے کوئی کام نہیں آ سکتے تھے۔ مگر انٹرنیٹ آنے کے بعد یہ اچانک ٹیلی فون سے زیادہ اہم ہو گئے تھے اور الیکٹرانکس کی دوکانیں ان کی مانگ پوری کرنے کے لیے چھوٹی ثابت ہو رہی تھیں۔ مگر پاکستانی طالب علموں میں یہ ایجاد ایک اور سماجی خدمت کی وجہ سے مقبول ہو رہی تھی اور وہ تھی عشق

وہ مشرقی تہذیب جس نے اپنے معاشرے میں محبت نامے حرام کر رکھے تھے اور ان کے دریافت ہو جانے پر گھروں میں پٹائیاں ہوا کرتی تھیں، وہ انٹرنیٹ اور ای میلز کے آڑے نہیں آ سکی تھی۔ اس کے نتیجے میں کچھ ایسی دوستیاں اور محبتیں ممکن ہو گئی تھیں جو بین الاقوامی تھیں اور کسی علاقائی تہذیب کی پابند نہیں تھیں۔ کیوں کہ فیس بک اور ایم ایس این ایجاد نہیں ہوا تھا۔ اس وجہ سے وہ واحد سافٹ ویئر جو عاشقوں کی ضرورت ہوا کرتا تھا وہ تھا ایم آی آر سی
۔ ہر شام اس پر مشرقی تہذیب کے ہاتھوں پٹی ہوئی بنیادی انسانی ضروریات سے محروم نو جوان نسل لاگ ان ہو جاتی تھی اور انجان لوگوں سے وہ باتیں کیا کرتی تھی جو اپنے سگوں سے نہیں کر سکتی تھی۔
عشق بازی کے علاوہ لوگ ایک دوسرے کے مسائل سنتے تھے اور ایک د وسرے کو دلاسے دے کر ایک دوسرے کی تھراپی کیا کرتے تھے۔

ایک کمیونیکیشن سٹڈیز کے طالب علم کی حیثیت سے میرے لیے انٹرنیٹ اور خاص طور پر ایم آی آر سی
ایک بہت توجہ طلب چیز تھی۔ اس نے مشرقی تہذیب کو پہلی بار یہ احساس دلایا تھا کہ اس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیٕں ہے۔ برٹرینڈ رسیل نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ اقدار دو قسم کی ہوتی ہیںٕ۔ ایک تو وہ جن کا لوگ بھری مجمع میں اعتراف کرتے ہیں اور دوسری وہ جن پر وہ اپنی زندگی کے فیصلے کیا کرتے ہیں۔ ایم آی آر سی
نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ مشرقی تہذیب صرف پہلی قسم کی اقدار کا نام ہے۔ یہ وہ اقدار ہیں جن کے منہ پر اعتراف کرنے والے تو بہت ملیں گے مگر ان پر نہ تو زندگی گزاری جا سکتی ہے اور نہ ہی انسانی معاشرے ممکن ہیں۔ اسی وجہ سے مشرقی اقدار اس متوازی کائنات میں غائب ہو جاتے ہیں جسے ہم سائبر اسپیس کہتے ہیں۔

سائبر اسپیس پر انسان وہ اقدار لے کر آتا تھا جن پر وہ حقیقی معنوں میں جی رہا ہوتا تھا اور اسی وجہ سے انٹرنیٹ کی دوستیاں اچانک ان دوستیوں سے زیادہ مضبوط ہونے لگی تھیں جو ہم نے اپنی حقیقی زندگیوں میں قائم کر رکھیں تھیں۔ نفسیاتی ماہرین کو پہلی بار ایک ایسی بیماری کاعلاج کرنا پڑ رہا تھا جو انٹرنیٹ سے پہلے ممکن ہی نہ تھی اور انہوں نے اس بیماری کو انٹرنیٹ کی لت کا نام دے دیا تھا۔کمیونیکیشن سٹڈیز کے حوالے سے یہ ایک غلط نام تھا۔ ہم لوگ بہت پہلے سے کہہ رہے تھے کہ یہ انٹرنیٹ کی لت نہیں ہے بلکہ تعلقات کی لت ہے جسے جدید زرائع ابلاغ نے ممکن بنایا ہے۔
یعنی ماہرین نفسیات کی اصل توجہ کا مرکز تو وہ لوگ ہونے چاہیے تھے جو سائبر اسپیس سے باہر اور تہذیب کے اندر پس رہےتھے۔

ایم آئ آر سی پر ایک چیز بہت واضح تھی۔ وہ یہ کہ لڑکیوٕں کو لفنگے بہت اچھے لگتے تھے۔ یہ وہ حقیقت تھی جس کا وہ تہذیب کے دائرے یعنی اپنی حقیقی دنیا میں اعتراف نہیں کر سکتی تھیں۔ مگر سائبر اسپیس جیسا نتیجہ کے بغیر ورلڈ اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ لڑکیوں کو لفنگے کتنے اچھے لگتے ہیں۔ جب میں نے نوع سٹڈیز کی کلاس لی تو اسی حقیقت کو ایک علمی سطح پر سمجھنے میں مدد ملی۔نوعسٹڈیزمیں فلم، ٹی وی اور لٹریچر کی مختلف اقسام پر تحقیق ہوتی تھی۔ سائنس فکشن ، دھشتناک ، مغربی جیسے مختلف انواع بندی کو پڑھا جاتا تھا، ان کی فلمیں یا ٹی وی پروگرام دیکھے جاتے تھے اور ان پر کریٹکل تھیوری کے وہ ماڈل لگائے جاتے تھے جو کلاس میٕں پڑھائے گئے تھے۔

جس سال میں نے نوع سٹڈیز کی کلاس شروع کی اس سال ہماری تحقیق ماڈل پر تھی۔

کلاس میں ستر طالب علم تھے اور انہوں نے ساتھ مل کر ایک مقداری تحقیق پیپر لکھنا تھا۔ ہر طالب علم نے دنیا بھر سے عشق کی دس داستانوں کا جائزہ لینا تھا، چاہے وہ فلم کی ہوں، یا ٹی وی کے پروگرام یا ناول کی کہانیاں۔ پھر ان میں موجود ہیرو کا کردار کا تجزیہ کرنا تھا۔ ان ستر طالب علموں میں سے اکیس ایسے تھے جو انگریزی اور فرانسیسی کے علاوہ بھی کوئی اور زبان جانتے تھے۔ انہیں میں سے ایک میں بھی تھا۔ جو دس کہانیاں میرے حصے میں آئیں وہ تھیں:

لیلیٰ مجنوں

دل والے دلہنیا لے جائیں گے

ٹائٹینک

رومیو اور جولیٹ

ہیلن آف ٹرائی

ان کے علاوہ کچھ داستانیں مقامی انڈینزکی بھی تھیں جو صدیوں پرانی تھیں اور زبانی ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوئی تھیں۔ یعنی فارسی، عربی، ہندی، جدید برطانوی، کلاسیکل یونانی اور امریکی ہالی وڈ کی سنائی ہوئی عشق کی داستانوں کو پڑھ کر اس میں موجود مرد کردار کو سمجھنا تھا کہ وہ کس قسم کا آدمی ہوتا ہے اور ان کہانیوں کو سننے والے اس سے کیوٕں پیار کرتے ہیں۔

جب ستر طالب علموں نے دس، دس کہانیوں کا ایک پورے سیمیسٹر میں جائزہ لیا تو ساری دنیا سے سات سو داستانیں جمع ہو گئیں جو مختلف ادوار میں مختلف علاقوں میں سنائی گئی تھیں۔ یہ اس وقت تک رومانوی کے انواع پر کی جانے والی سب سے بڑی تحقیق تھی جو ہماری یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔ اس تحقیق میں جن کہانیوں کا جائزہ لیا گیا ان میں صرف وہ کہانیاں شامل کی گئی تھیں جو بڑی عمر کے لوگوں کے لیے یعنی بالغوں کے افسانے کہلاتی تھیں۔ ان میں سنڈریلا یا سنو وہائیٹٹ وغیرہ کو شامل نہیں کیا گیا تھا کیونکہ وہ بچوں کی تھیں۔

تحقیق میں ایک بات سامنے آئی۔ اگر ان کہانیوں میں سے وہ کہانیاں نکالی جائیں جو عوام اور خاص طور پر خواتین میں بہت مقبول رہی تھیں تو ان تمام کہانیوں کے مرد کردار اپنے اپنے ادوار کے لفنگے تھے۔ لیلیٰ مجنوں میں قیس کا کردار ایک لفنگا تھا جسے باقی دنیا نے جنونی کے نام سے جانا۔ ‘دل والے دلہنیا لے جائیں گے’ میں راج ملہوترا کا کردار جسے شاہ رخ خآن نے ادا کیا تھا, وہ بھی ایک اول درجے کا لفنگا تھا۔ اسی طرح سے ولیم شیکسپئر نے جب رومیو کا کردار لکھا تو یہ اس دور کے لحاظ سے ایک ایسا ناقابل برداشت لفنگا تھا جسے اولاد کے طور پر کوئی یورپی گھرانہ قبول نہ کرنا چاہے گا۔ ‘ٹائٹینک’ میں جیک ڈاؤسن کا کردار جسے لیونارڈو ڈی کیپریو نے ادا کیا وہ وکٹورین دور کا لفنگا تھا۔ اور ‘ہیلن آف ٹرائے میں شہزادہ پیرس ایک ایسا لفنگا تھا جس کے لفنگے پن سے ایک پوری قوم نقشے سے غائب ہو گئی۔
جب میں نے اندس کہانیوں پر اپنی رپورٹ مکمل کی تو مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اتنے مختلف علاقوں میں اتنے مختلف ادوار میں لکھی ہوئی کہانیوں میں اگر کوئی چیز مشترک تھی تو وہ لفنگا تھا۔ شروع میں تو میں سمجھا کہ شاید میرے حصے میٕں جو دس داستانیں آئیں وہ اتفاق سے لفنگوں ہی کی تھیں۔ ہو سکتا ہے کہ باقی کلاس میں لوگوں کے پاس ایسی کہانیاں آئی ہوں جن میں لڑکیوں کو شریف اور مہذب لوگوں سے عشق ہو گیا ہو۔ مگر سات سو سے زائد بین الاقوامی کہانیوں کی اجتماعی رپورٹ جو سینکڑوں صفحوں پر مشتمل تھی وہ چلا چلا کر کہہ رہی تھی کہ دنیا بھر کی لڑکیوں کو لفنگے ہی اچھے لگتے ہیں!

دنیا میں اگر مصنف نے کہانی میں لڑکی کی کسی شریف زادے سے عشق کرانے کی کوشش بھی کی تھی تو وہ کہانی اپنے دور کی ناکام کہانی رہی۔

کہانی کے کرداروں کو ان کی شخصیت ہمیشہ علاقائی تہذیب عطا کرتی ہے۔ اسی وجہ سے ان کرداروں کو اس تہذیب سے باہر مقبول بنانا مشکل ہو جاتا ہے جس کی وہ پیداوار ہوتے ہیں۔ اس کی اولین مثال پنجابی کی فلم ہے۔ پنجابی فلموں میں ہیرو کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایک غصے والا انسان ہو۔ کیونکہ اس علاقے میں غصے کو مردانگی اور غیرت کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے جب مصنف غیرت مند آدمی دکھانا چاہتے ہیں تو وہ غصے والا آدمی دکھاتے ہیں۔

مگر دنیا میں بہت سی ثقافتیں ایسی بھی ہیں جہاں غصے کو کمزوری اور بے بسی سے منسلک کیا گیا ہے۔ ان ممالک میں کہانی کے ہیرو کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بڑی سے بڑی مصیبت بغیر غصے کے سہے ورنہ اسے بے بس سمجھ لیا جائے گا۔ اس کی اولین مثال ہانگ کانگ کا وہ سنیما تھا جو بین الاقوامی مارکیٹ کے بجائے مقامی لوگوں کے لیے ہوا کرتا تھا۔ کیونکہ کنفیوشنزم کے فلسفے اور بدھ مت کی تعلیمات میں غصہ ایک پلید جذبہ تھا اس وجہ سے ‘کنگ فو’ کی تمام فلموں میں جیکی چن کا کردار ان تمام آزمائشوں سے گزرتا تھا جن میں ایک عام آدمی کو شدید غصہ آجاتا ہے مگر جیکی چن کی تمام جدو جہد غصے کے بجائے اصولوں پر ہوتی تھی۔

مگر لفنگوں کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔ لفنگے نہ تو پنجابی فلموں کے ہیرو کی طرح کسی علاقای حدود کا لحاظ کرتے تھے اور نہ ہی بدلتے ہوئے زمانے نے ان کی مانگ میں کمی یا اضافہ کیا تھا۔ یہ جب بھی کسی کہانی میں نمودار ہوتے تو دنیا کی تمام لڑکیاں ان پر عاشق ہو جاتی تھیں اور اس طرح لفنگے ہر دور کی خواتین کے دلوں میں اپنی جگہ پیدا کر لیتے تھے۔ جب کسی بھی نوع کی کوئی خصوصیت اپنی علاقائی سرحد کی حدود پار کرکے باہر نکل آتی تھی تو اسے کلچرل سٹڈیز کے بجائے نفسیات کے مضمون کے تحت دیکھا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہماری اس تحقیق نے جو نتائج سامنے رکھے اس کے بعد اگلا سیمیسٹر پڑھانے کے لیے ڈاکٹر بیری گرانٹ کو بلوایا گیا۔

ڈاکٹر بیری گرانٹ فلمی مطالعہ کے ایک پروفیسر تھے جو عالمی فلموں کے ان رجحانوں پر رپورٹس لکھتے تھے جو کلچرل سٹڈیز کی حدود پھلانگ کر نفسیات میں آ گرے تھے۔ یہفرایڈ اور لاکان کے دیے ہوئے انسانی نفسیات کو سمجھنے کے ماڈل، فلموں کی کہانیوں پر لگاتے تھے تاکہ ان کہانیوں کے سننے اور سنانے والوں کی نفسیات سمجھی جاسکے۔ اپنے آخری سیمیسٹر میں انہوں نے جو لیکچر دیے ان کے نوٹس میرے پاس آج تک موجود ہیں۔ انہیں نوٹس میں ایک پیرا گراف لکھا ہوا ہے جو میں مشرقی تہذیب کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اسے ذرا غور سے پڑھیے گا:

“عورت کو اللہ تعالٰی نے آنے والے دور کا امام پیدا کرنے کے لیے بنایا ہے۔ اگر اس پر معاشرے کا جبر مسلط نہ کیا جائے تو وہ ایک ایسا ہم سفر تلاش کرے گی جو اس دور کے اقدار سے باہر جی رہا ہوگا۔ اس تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد نئی اقدار اور نئی سوچ کو دنیا میں متعارف کرانے کا ذریعہ بن سکتی ہے”۔
پاکستان کے حالات صحیح کرنے کے لیے صرف ایک کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی خواتین کو آزادی دیجئے۔ تہذیب کا جبر مسلط کرنے کے بجائے انہیں اپنے فیصلے خود کرنے دیجئے۔ انہیں اپنے لیے خود وہ ہم سفر تلاش کرنے دیجئے جس کی اولاد آنے والے دور کی امامت کرے گی۔ ان کی جبلت وہ کام کر دکھائے گی جو ان کی تہذیب پچھلے دو سو برسوں سے نہیں کر سکی ہے۔ یعنی آنے والے دور کے امام پیدا کرنا
ہے ۔