امریکہ میں سپیلنگ بی میں بھارتی نژاد بچے ہی کیوں فاتح؟

پیر , 30 مئی , 2016

قومی آواز مانیٹرنگ ڈیسک :۔امریکہ میں منعقدہ ’نیشنل سپیلنگ بی‘ مقابلہ گذشتہ ہفتے دو بھارتی نژاد امریکی بچوں نے جیت لیا۔

ٹیکسس کے 11 سالہ نہار جنگا اور نیویارک کے 13 سالہ جیے رام ہیتھوار نے یہ مقابلہ جیتا۔

یہ مقابلہ ٹی وی پر براہ راست نشر کیا گیا تھا اور فائنل میں دونوں نے 25 راؤنڈ تک مقابلہ کیا جس کے بعد دونوں کو مشترکہ طور پر مقابلے کا فاتح قرار دیا گیا اور دونوں کو 40 ہزار ڈالر فی کس انعام میں ملا۔ اس کے علاوہ دیگر تحائف اور انعامات بھی شامل تھے۔

یہ پہلی بار نہیں کہ بھارتی نژاد امریکی طالب علم ’نیشنل سپیلنگ بی‘ کے مقابلے میں فاتح رہے۔

گذشتہ برس 2015 کا مقابلہ بھی گوکول وینکٹیچم اور وینیا شیوشنکر نے جیتا تھا جبکہ وینیا کی بڑی بہن کاویہ نے 2009 میں یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔

2014 میں آنسن سوجوئی اور 2016 کے فاتح جیے رام کے بڑے بھائی شریرام ہیتھوار نے جیتا تھا۔

جس کے علاوہ 2013 کا مقابلہ ارویند ماہنکالی جبکہ 2012 کا سنگدھا ندرپتی، 2011 کا سکینا رائے اور 2010 کا انامیکا ویرامنی نے جیتا تھا۔

’نیشنل سپیلنگ بی‘ میں کامیابیوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو رواں برس فائنل مرحلے میں جانے والے 285 امیدواروں میں سے 70 کا تعلق جنوبی ایشیا سے تھا۔

ان میں سے متعدد میٹلائف ساؤتھ ایشیا سپیلنگ بی مقابلے کے ذریعے ہجوں کے قومی مقابلے تک پہنچے۔

امریکہ میں ’نیشنل سپیلنگ بی‘ کے گذشتہ نو مقابلوں میں فتح کے علاوہ بھارتی نژاد امریکی بچوں نے امریکہ میں منعقدہ ’نیشنل جیوگرافک بی‘ کے آخری پانچ مقابلوں میں کامیابی حاصل کی۔ اس مقابلے میں لاکھوں امریکی بچوں کے جغرافیائی علم سے متعلق امتحانات لیے جاتے ہیں۔

سال 2005 سے امریکی میں منعقد ہونے والے ان دو مقابلوں میں بھارتی نژاد بچوں کی کامیابی کا تناسب 80 فیصد ہے۔

امریکہ میں سکول جانے والے بچوں میں بھارتی نژاد بچوں کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے اور کیا وجہ ہے کہ وہ غیر معمولی کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔

یہ سوال جاننے کے لیے میں نے یونیورسٹی آف پینسلونیا کے دویش کپور اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سانتا کروز کے نیروکر سنگھ کے ساتھ مل کر تحقیق کی۔

اس تحقیق کے دوران سکولوں اور کالجوں میں منعقد ہونے والے دیگر مقابلوں میں بھارتی نژاد بچوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔

پڑھائی سے متعلق بالخصوص سائنس اور ریاضی کے مقابلوں میں بھارتی نژاد طالب علموں نے اچھی کارکردگی دکھائی لیکن یہ سپیلنگ بی میں کامیابیوں کے قریب قریب بھی نہیں تھی۔

ان میں سائمنز سائنس مقابلہ، انٹل سائنس ٹینلٹ سرچ، میتھ کاؤنٹس اور امریکی صدارتی مقابلہ، ٹرومین، چرچل، مارشل اور رودوش سکالرشپ کے مقابلے شامل ہیں۔

اس کے علاوہ موسیقی اور ایتھلیٹکس سمیت دیگر شعبوں میں بھارتی نژاد نوجوان نمایاں پوزیشنز حاصل نہیں کر پاتے ہیں۔

مثال کے طور پر 2013 کے امریکی سکولوں میں موسیقی کے مقابلے آل نشینل اونر اینسمبل میں مجموعی طور پر اوکسٹرا میں شامل جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے امریکی بچوں کی تعداد 45 فیصد تھی جبکہ اس میں بھارتی نژاد بچوں کی تعداد محض دو فیصد تھی جبکہ بینڈ میں جنوبی ایشیئن نژاد بچوں کی تعداد 13 فیصد تھی اور اس میں بھارتی نژاد بچوں کی تعداد صرف ایک فیصد تھی۔

سکولوں کی سطح پر ایتھلیٹکس اور کھیلوں کے مقابلوں میں بھارتی نژاد بچے باقاعدگی سے حصہ لیتے ہیں لیکن کالجوں میں بظاہر یہ بالکل غائب ہو جاتے ہیں اور پرفیشنل سپورٹس میں بھی نظر نہیں آتے ہیں۔

بھارتی نژاد طالب علموں میں سے کسی نے آئس ہاکی، بیس بال، امریکن فٹبال، باسکٹ بال میں پروفیشنل سپورٹس لیگ نہیں کھیلی۔

اس رجحان کو اس طرح دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں بھارتی شہریوں کو دی جانے والی امیگریشن میں سے 90 فیصد کی ڈگری ٹیکنیکل شعبے میں تھی جس میں اکثریت کا تعلق انجینیئرنگ سے تھا۔

اس طرح کا رجحان امریکہ میں آ کر بسنے والے بھارتی کی پہلی نسل میں تھا اور انھوں نے روزگار کے لیے ان شعبوں کا انتخاب کیا۔ ان میں سے ایک تہائی کے قریب انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر سے متعلق شعبوں میں ملازمتیں کرتے تھے۔

کئی بھارتی نژاد امریکی کاروباری افراد ایک ہی شعبے میں کام کرتے ہیں لیکن یہاں بسے بہت سوں کے اپنے گیس سٹیشن، فاسٹ فوڈ ریستوران ہیں یا وہ ہوٹلز اور موٹلز کے کاروبار میں ہیں اور اس میں ان کا غلبہ ہے۔

تو قومی سطح پر نمایاں کاکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ان بچوں کے والدین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور یہ چیزوں کو یاد کرنے اور یادداشت کے معاملے میں ماہر ہیں۔ اس کے علاوہ نسلی اور خاندانی نیٹ ورکس کا استعمال کرتے ہیں تاکہ مخصوص پیشوں میں اپنی برتری کو قائم رکھ سکیں۔

اور یہ ہی خاصیت ان کے بچوں کو سپیلنگ اور جغرافیائی علوم، حافظہ اور نیٹ ورکس جیسی شعبوں میں مدد دیتی ہے۔

اس سے بڑھ کر اہم یہ ہے کہ انھوں نے اپنی خوبیوں کو دوسری نسل تک منتقل کر دیا ہے۔

تارکین وطن کی اپنی برادری میں یا انفرادی طور پر کامیابی کی بھوک، سخت محنت کرنے کی عادت اور ضرورت کے وقت مشکل حالات کا سامنا کرنے کی ہمت اور یہ عوامل کامیابی اور معاشرے میں آگے بڑھنے کے لیے لازمی ہیں۔