پاکستان کے پبلک ٹوائیلٹ اور صفائی نصف ایمان

(قومی آواز (مسعود ملک اوماھا ۔ نیبراسکا

اداریہ

پاکستان کے پبلک ٹوائیلٹ اور صفائی نصف ایمان

پاکستان میں پبلک ٹوائلٹ کا اتنا رواج نہیں عام طور پر مسجدوں کو ٹوائلٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جسے نمبر ون یعنی چھوٹے پیشاب کی حاجت ہو وہ ادھر اودھر کوئی دیوار دیکھ کر بیٹھ جاتا ہے نوے فیصد لوگ شلوار قمیض پہنتے ہیں اس لئے نالا یا ناڑا “ازاربند” کھولا اور کام شروع. مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب کام تھوڑا لمبا ہو یعنی نمبر دو کا معاملہ ہو جسے حرف عام میں بڑا پیشاب کہا جاتا ہے. ایسے موقعوں پر نہ تو کوئی دیوار کام آتی ہے اور نہ ہی کسی درخت کی آڑ سے کام چلایا جا سکتا ہے
. لے دے کے ایک بیچاری مسجد رہ جاتی ہے. کیونکہ ہر مسجد میں کم از کم ایک ٹوائلٹ تو ضرور ہی ہوتا ہے اور ہر محلے اور بازار میں کم از کم ایک مسجد بھی ضرور ہوتی ہے لہذا جو کام پبلک ٹوائلٹ کو کرنا چائیے پاکستان میں وہ کام مسجد کرتی ہے
پاکستانی عورتوں کے لئے تو نمبر ون اور نمبر ٹو کی حاجت یکساں ایک عذاب سے کم نہیں بیچاری عورت نہ تو سر عام کسی دیوار کا سہارا لے سکتی ہے اور نہ ہی گلی کی کسی مسجد جا کر فطری حاجت پوری کر سکتی ہے کیونکہ مسجدوں میں عورتوں کا جانا تو ویسے ہی منع ہے. اکثر عورتیں مجبوراً اپنی حاجت کنٹرول کرتی ہیں جس سے انکی صحت کو نقصان پہنچتا ہے بلیڈر کے پھٹنے کا خطرہ ہوتا ہے
دیہات کی عورت تو کسی نہ کسی کھیت کا رخ کر لیتی ہے. کماد کا موسم ہو تو کیا ہی کہنے. مکمل پرائیویسی مل جاتی ہے لیکن گندم کے کھیت بھی عورت کو کسی حد تک تحفظ اور پرائیویسی فراہم کر ہی دیتے ہیں. عام طور پر دیہات کی عورتیں دن کا اجالا ہونے سے پہلے ہی اٹھ جاتی ہیں اور کھیتوں کا رخ کرتی ہیں تاکہ منہ اندھیرے رفع حجت سے نبٹ لیا جاے
دیہات میں کچھ گھروں میں ٹوائلٹ ہوتے ہیں لیکن ابھی بھی یہ سہولت ہر گھر میں موجود نہیں ہے لیکن اتنا ضرور ہے گھروں میں ٹوائلٹ کی سہولت کے معاملے میں پاکستان کی حالت انڈیا سے بدرجہ بہتر ہے
اگرچہ امریکا میں پبلک ٹوائلٹ کی سہولت ہر جگہ میسر ہے لیکن صفائی کے معاملے میں امریکن پبلک ٹوائلٹ بھی کچھ مثالی نہیں ہیں اگر ایمرجنسی نہ ہو تو لوگ عام طور پر پبلک ٹوائلٹ سے اجتناب کرتے ہیں. امریکا میں جگہ جگہ فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس ہیں آپ کو ہر بڑے شہر میں واکنگ distance پر کوئی نہ کوئی فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ ضرور مل جاے گا. مکڈونلڈز ، برگر کنگ، ٹاکو بیل، وینڈیز، آربیز، KFC وغیرہ ہر کونے میں موجود ہوتے ہیں اور ان کے باتھرومز عام طور پر صاف ستھرے ہوتے ہیں اس لئے پبلک ٹایلیٹ کے لئے یہ ریسٹورنٹس بیسٹ آپشن ہوتے ہیں.
ہم پاکستانی مسلمان صفائی کو نصف ایمان سمجھتے ہیں لیکن اگر عملی طور پر دیکھا جاے تو ہم بحیثیت ایک قوم صفائی کے دشمن ہیں. مسجد کے ٹوائلٹ میں چلے جائیں تو اتنی خوفناک بدبو آپ کا استقبال کرتی ہے کہ جیسے وہاں کسی مردے کی لاش کو گلنے سڑنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے. اچھا بھلا انسان بدبو سے بیمار ہو جاتا ہے. شیہر میں بڑے بڑے trash Container رکھے ہوۓ ہیں لیکن اتنا کوڑا کنٹینر کے اندر نہیں ہو گا جتنا لوگ کنٹینر کے باہر پھینک جاتے ہیں اور ہر طرف بدبو پھیلی ہوتی ہے. شائد یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مکھیوں اور مچھروں کی بھرمار ہے
بہت سال پہلے کی بات ہے میں راے ونڈ سالانہ اجتماع پر گیا. وہاں پبلک کے لئے جو لیٹرینیں (toilets) بنے ہوۓ تھے وہ اتنے گندے اور بدبو دار تھے کہ وہاں سے بھاگنے کو دل کرتا تھا. خوفناک قسم کی گسیں دماغ کو چڑھتی تھیں. یہ حال تھا اسلامی مرکز کا جہاں صفائی نصف ایمان کا دن رات لیکچر ہوتا تھا.
ویسے ان تمام مسائل کا بہترین حل تو یہ تھا کہ انسان کو اس طرح تخلیق کیا جاتا کہ انسان ہر روز دو کلو سے زیادہ انسانی فضلہ  پیدا ہی نہ کرتا اس طرح ہمیں ہر رفع حاجت اور نمبر ون سے نجات مل جاتی لیکن یہ “intelligent design” کچھ اتنا قابل رشک نہیں ہے. چلیں اور نہیں تو انسانی فضلے کو بغیر بدبو کے بنایا جا سکتا تھا لیکن کوئی بھی خامی انٹیلیجنٹ ڈیزائن میں دور نہیں کی جا سکی مجھے تو انٹیلیجنٹ ڈیزائن پر شق ہونے لگا ہے خیر چھوڑیں انٹیلیجنٹ ڈیزائن کو اس مسئلے کا کوئی دنیاوی حل تلاش کرتے ہیں. میرے خیال میں حکومت کو پبلک مقامات پر ایسے autometic toilets بنوانے چاہییں جو سولر ہیٹ سے پانی کو گرم کریں اور استعمال کے بعد toilet اپنے آپ کو گرم پانی کے سپرے سے خود ہی صاف کر لے اس طرح ہر بار toilet صاف ستھرا اور جراثیم سے پاک ملے گا. ان public restrooms کو چلانے کے لئے ٹوکن کا نظام بنایا جا سکتا ہے آپ اس میں پانچ یا دس روپے کا سکہ ڈالیں اور آرام سے صاف ستھرا بدبو اور گندگی سے پاک باتھروم استعمال کریں. ساتھ ہی ہاتھ دھونے کے لئے واشنگ سنک اور لیکویڈ سوپ ہو اس طرح ہم پبلک ٹوائلٹ کے مسئلے کو بخوبی حل کر سکتے ہیں اور خاص طور پر پاکستانی خواتین کو ایک اچھی سہولت اور facility مل سکتی ہے اس طرح پریشانی سے بچا جا سکتا ہے . دیواریں گندی ہونے سے بچ سکتی ہیں. گندم اور کماد کے کھیتوں کو انسانی فضلے سے بچایا جا سکتا ہے یہ نظام ہم اپنی ٹرینوں، بس اور ریلوے سٹیشن پر بھی implement کر سکتے ہیں. اسی طرح شہر کے مصروف بازاروں اور مارکیٹوں میں بھی یہ نظام متارف کروایا جا سکتا ہے آئیے ہم سب مل کر اپنے ملک کو صاف ستھرا اور مہذب ملک بنائیں
پبلک ٹوائلٹ بنانے کے ساتھ ساتھ ہمیں اس mentality یا سوچ کو بھی ختم کرنا ہو گا کہ ٹوائلٹ ایک گندی جگہ ہے اور اسکا گندا اور بدبو دار ہونا فطری ہے. ترقی یافتہ ملکوں میں لوگ اپنے گھر میں سب سے زیادہ توجہ اپنے باتھروم پر دیتے ہیں اور گھر میں سب سے زیادہ صاف جگہ گھر کا ٹوائلٹ ہوتا ہے. صفائی اسی وقت نصف ایمان ہو گی جب ہم اس کا عملی مظاہرہ کر کے دکھائیں گے. کوئی قوم کتنی مہذب اور صاف ستھری ہے اسکا پتا اس ملک کے صاف ستھرا ہونے سے لگتا ہے. آئیے ہم سب پاکستان کو صاف ستھرا اور جدید ملک بنائیں کیونکہ یہی ایک سچے پاکستانی کی دلی تمنا ہے اور یہی قومی آواز ہے۔۔۔


متعلقہ خبریں