….اف یہ شوھر…شوہروں کی اقسام

قومی آواز ۔

تحریر: غزالہ خالد
چلیے ایک بات تو طے ہوئی کہ وہ خواتین جو یہ سمجھ رہی تھیں کہ خواتین کی اس محفل میں حضرات ذرا کم کم ہی آتے ہیں اب ان کی یہ غلط فہمی ختم ہو جائے گی نہ جانے کیوں ہم یہ بھلا بھیٹتے تھے کہ مر د ہو اور خواتین کی محفل میں تانک جھانک نہ کریں بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے اور ”ہاے یہ بیویاں ۔۔۔۔ “شائع ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ حضرات تو ہماری اس محفل میں نہایت ذوق و شوق سے شریک ہو تے ہیں ذرا ہم نے دل لگی کیلئے اپنا ہی مذاق اڑا لیا ان لوگوں کے ہاتھوں تو جیسے کوئی مشغلہ ہی لگ گیا ھو, جی ہاں جب سے بیویوں کی اقسام پڑھی ہیں سب بہت خوش ہیں ایک دوسرے سے سوال ہو رہا ہے کہ تماری بیگم کی کونسی قسم ہے خوب خوب مذاق اڑا یا جا ررہا ہے اب بھلا ہم سے یہ کب برداشت ہو سکتا تھا ؟سو فوراََ ہی اس آئینہ کو اٹھایا اور حضرات کے سامنے رکھ دیا ،بس آئینہ رکھنے کی دیر تھی کہ قسم قسم کے شوہر نظر آنا شروع ہو گئے بلکہ ان کی تو اتنی قسمیں معلوم ہوئیں کہ ساری لکھ دیں جائیں تو خواتین کے صفحات کم پڑ جائیں لہذاخاص خاص اقسام حاضر خدمت ہیں تو جناب حضرات اب آئینہ آپ کے سامنے ہے ذرا دل بڑا کریں ۔آئینہ ان کو دکھا یا تو بُرا مان گئے والی کیفیت نہیں ہو نی چاہئے اور پیاری بہنوں آپ لوگ بھی جلدی سے پڑھیں اور سوچیں کہ آ پ کے والے ،شوہر کون سے ہیں
حاکم شوہر
ایسے شوہر غم میں ہر وقت مبتلا اور بیوی کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں ایک منٹ بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیتے ،آرڈر..آرڈر..  لہذا حکم کی تعمیل ہر حا ل میں ہونی چاہیے ، سو بیویاں بیچاری تگنی کا ناچ ناچتی رہتی ہیں ان کا لہجہ نہایت مظلومانہ ہوتا ہے چہرے پر ہر وقت ایک کھچاﺅ کی سی کیفیت رہتی ہے ناک سے دھواں نکلتا محسوس ہو تا ہے ان کی  بے تکلفی میں بھی ایک خوف ہوتا ہے اگر بیوی ہم مزاج مل جائے تو طلاق یا فتہ ہو تے دیر نہیں لگتی

پڑھاکو شوھر
میگزین یا کسی موٹی کتا ب کے پیچھے غروب رہتے ہیں اور بیوی کے سخت واویلا مچانے پر بڑی مشکل سے طلوعہوتے ہیں ہوں ہاں اچھا ٹھیک ہے سے زیادہ بات نہیں کرتے گھرمیں جا بجا ردی ااخبار کے ڈھیر نظر آتے ہیں جنہیں یہ حضرات اپنی متا ع حیات قرار دیتے ہیں اکثر گلی میں ردی پیپر والے کی آواز سن کر بیویاں اس ڈھیر کو کینہ توڑ نظروں سے گھورتی پائی جاتی ہیں اور کبھی نہ کبھی کوئی سنہری موقع ملنے پر یہ متاع حیات پانچ روپے کلو کے عوض ٹھیلے کی رونق بڑ ھا رہی ہو تی ہے ۔

بچہ جمہورا شوہر

دامے،درمے، قد مے، سخنے ہر طرح سے بیوی اور اس کے میکے والوں کی خدمت پر چوکس اور تیار رہتے ہیں۔ ہر وقت چوکنا رہتے ہیں کہ کب ادھر سے کوئی حکم ملے تو اسے پورا کریں۔اگر کہتے ہیں بچہ جمہورا بیٹھ جاﺅ یہ بیٹھ جاتے ہیں۔ حکم ملتا ہے بچہ جمہورلیٹ جاﺅ یہ فٹا فٹ لیٹ جاتے ہیں۔ فرمائش ہوتی ہے بچہ جمہورا ناچ کے دکھاﺅ یہ ان کی انگلیوں پر ناچنا شروع کر دیتے ہیں۔ معاشی طور پر سسرال والوں سے کافی کمزور ہوتے ہیں لہذا حکم سے سر تابی کی جرات نہیں ہوتی۔ اگر بیوی اور سسرال زار دار مل جائے تو بڑے بڑے پھنے خانوں کو اپنی چوکڑی بھول کر بچہ جمہورا بنتے دیر نہیں لگتی۔

نازک شوہر

چھلا سی کمر غنچہ سا دہن رکھنے والے نرم و نازک لڑکی نما ہوتے ہیں، اماں کے لاڈلے اور بیویو ں کے راج دلارہے ہوتے ہیں گھر سے ذیادہ باہر نکل جائیں تو تیز ہوا سے چھینکیں آجاتی ہیں،یا دھوپ میں پگلنے کا خطرہ ہوتا ہے ، اپنی جان بہت پیاری ہوتی لہذا معمولی سی بیماری پر آفس سے چھٹی کرنے پر تیار رہتے ہیں۔ چھینک پر چھٹی اور بخار پر چھلا نہانے کے بعد آفس جاتے ہیں ، اس کے بعد بھی کافی دن تک گوند مکھا نے کھا تے رہتے ہیں۔

تا ڑو شو ہر
نام سے کچھ بد تہذیبی ضرور جھلک رہی ہے لیکن ہم بھی مجبور ہیں۔ کیوں کہ اس سے بہتر نام ”ان کیلئے “ کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا ۔ پاکستان میں سب سے زیادہ پا ئی جانے والی قسم ہے،دل میں خواہشات کا انبار ہوتا ہے لیکن چونکہ شریف خاندان سے تعلق ہوتا ہے یا فطر تا  کم ہمت ہوتے ہیں ۔ لہذا زمانہ کیا کہے گا کے ڈر سے تاڑنے پر اکتفا کرتے ہیں ا ور دماغ کو ٹھنڈک ،دل کو چین اور نظر کو تراوٹ پہنچاتے ہیں۔ کھڑکی سے، دروازے سے،چلمن سے ،چوبارے سے دوبارہ ظا ہر چھپ کر غرض تاڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور بوڑھی جوان خوبصورت بد صورت کالی گوری امیر غریب کسی کو نہیں بخشتے گھر سے باہر نکلتے ہی ان کی نظریں دوسری خواتین پر جبکہ بیگم کی شعلہ ہار نگاہیں ان پر ہوتی ہیں۔

نکھٹو شوہر
ہر وقت پلنگ توڑتے رہتے ہیں یا بیمار بننے کی ایکٹنگ کرتے رہتے ہیں ۔ بیویاں کماتی ہیں اور یہ مزے سے کھاتے ہیں بیوی کی کمائی پر عیش کرو مزے کرو فارمولےپرعمل کرتے ہیں پا ن سگریٹ اورکیبل کے بہت شوقین ہوتے ہیں لمبی لمبی چھو ڑنے کی عادت بھی ہوتی ہے۔ موج مستی میں بھی خوب دل لگتا ہے۔ صرف کام کرنے کا سن کر طبیعت اچانک خرا ب ہوجاتی ہے اور بیوی سے خوب لا ڈ ا ٹھوانے کے بعد ٹھیک ہوتی ہے۔

پیٹو شوہر

یہ کھانے پینے کے انتہا کےشوقین ہوتے ہیں ،زندہ رہنے کیلئے نہیں بلکہ کھانے کیلئے زندہ رہتے ہیں۔ صرف دل کا ہی نہیں بلکہ دماغ کا راستہ بھی پیٹ سے ہوکر گزرتا ہے۔ بیویوں کےطرح طرح کے پکوان پکاتے دیکھ کر ان کا ڈھیروں خون اور پھر کھا کر سیروں خون بڑھتا ہے۔ بے ہنگم ڈیل ڈول کے مالک ہوتے ہیں پھر بھی کھابا دیکھ کر ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں ۔ بیوی کی ساری عمر باورچی خانے میں گزرتی ہے۔

کنجوس شوہر

دانتوں سے پکڑ پکڑ کے خرچ کرتے ہیں ،شادی بھی شاید اس لیے کر لیتے ہیںکہ بہت سے نوکروں کے بدلے ایک عدد بیوی سے سارے کام مفت میں لیے جاسکیں۔ اگر بیوی کبھی شاپنگ پر جانے کا کہے تو لے کر ضرور جاتے ہیں لیکن صرف ونڈو شاپنگ کرواتے ہیں۔ کیوں کہ بیوی کے ساتھ گھر سے نکلتے وقت پیسے بالکل نہیں رکھتے ۔ ان کا اصول ہوتا ہے کہ نہ جیب میں پیسے ہوں گے نہ خرچ ہونگے لہذا بیویاں ہر چیز کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہیں، قیمت پوچھتی ہیں شوق سے حد بڑھ جائے تو چیز کو چھوبھی لیتی ہیں اور دل مسوس کر گھر واپس آجاتی ہیں۔۔

شرمیلا شوہر

نہایت کم اعتماد اورا تنہا ئی پھٹو ہوتے ہیں خواتین دیکھ کر ان کی روح فنا ہو جاتی ہے ، عجیب مضحکہ خیز حرکتیں کرنے لگتے ہیں ۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ شرٹ میں منہ چھپا لیں ۔ بچپن اماں کی گود اور جوانہ بیوی کی اوٹ میں چھپ کر گزار دیتے ہیں ۔ محفلوں میں بیوی کے پاس گھس کر بیٹھے نظر آتے ہیں ۔ کسی سے بات تو کرسکتے نہیں , لہذا بے وقوفوں کی طرح مسکرا مسکرا کر باری باری سب کو دیکھتے ہیں۔ گھر کا دروازہ بجنے پر بیوی دروازہ کھولنے جاتی ہیں ۔ کیوں کہ اس وقت یہ کسی پردے کے پیچھے ہوتے ہیں۔

پردیسی شوہر

غم روز گار کے سلسلے میں ملک سے باہر رہتے ہیں ۔ بیوی بچے ان کے بغیر رہنے کے اتنے عادی ہوجاتے ہیں کہ کبھی واپس بھی آنا چا ہیں تو بیویاں فورا گانا شورع کر دیتی ہیں کہ ابھی نہ آﺅ چھوڑ کر کہ گھر ابھی بھرا نہیں بس ٹیلی فون پر خیر خیریت معلوم ہوتی رہتی ہے۔سال دو سال میں چکر لگا لیں تو بیوی کوپرائےپرائے لگتے ہیں، جب تک رہیں گھر قید خانہ معلوم ہوتا ہے۔ بچے تو ان کے قریب جانا پسند نہیں کرتے گھر والوں کو ان سے زیادہ ان کے بھیجے ہوئے چیک کا انتظار رہتا ہے, محفلوں میں عام طور سے منرل واٹرکی بوتل لئیے پہچانے جاسکتے ہیں

سگھڑ شوہر

امور خانہ داری میں ماہر اور گھریلو کام کاج میں طاق ہوتے ہیں صبح اٹھ کر بیگم کو بیڈ ٹی بنا کر دینے سے لے کر گھر کا سودا سلف لانا ، مزے مزے کے کھانے پکانا ۔ بچوں کے فیڈر بنا کر دینا ان کے ڈائیپر بدلوانا غرض پر کام خوشی خوشی کرتے ہیں اور حیرت کی بات یہ کہ اس کے ساتھ ساتھ دفتر کی ذمہ داریوں بھی خوش اسلوبی سے نبھاتے ہیں ۔ محفلوں میں بچے سنبھالتے بھی نظر آتے ہیں۔ بیویاں ساری عمر سکھ شا نتی سے ہاتھ پر ہاتھ
رکھے بیٹھی گزاردیتی ہیں اور اس خدمت کو اپنا حق سمجھتی ہیں۔

ہرجائی شوہر
ہیرا پھیری میں ماہر جھو ٹ بولنے کے بے انتہا شوقین ہوتی ہیں۔ ادھر موج میلہ کرنا بھی پسندہوتا ہے۔ ان کے کارنامے وقتا فوقتا ادھر ادھر سے سننے کو ملتے ہیں۔ بیوی کے پاس صبر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا یا پھربڑھاپے کا انتظار کرتی ہیں اور جب یہ ہرجائی لوٹ کر بیوی کے پاس واپس آتا ہے تو اگلے پچھلے سار ے حساب سود سمیت واپس کر دیتی ہیں۔

بزرگ شوہر

جس عمر میں لوگ حج کا فریضہ ادا کرنے کو بعد اللہ اللہ کرنے کا سوچتے ہیں ،اس عمر میں انہیں شادی کا خیال آتا ہے اور بالوں کا رنگ کالا خضاب لگا کر ایک کم سن حسینہ کو اپنی بزرگانہ  شفقت پناہ میں لے لیتے ہیں
دوست احباب لڈو کھانے کے بعد دادا بننے کی مبارک دیتے ہیں۔

ساسو شوہر

کڑوی کسیلی اور طنزیہ گفتگو کرنے میں ماہر ہوتے ہیں ،بیوی کے کام کو تنقیدی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ زبان سے جملے نہیں بلکہ تیر نکلتے ہیں۔ جو کھٹاک سے کلیجے میں پیوست ہوجاتے ہیں اکثر بیویاں خدا کا شکر ادا کرتی ہیں کہ ان حضرات کو اللہ نے عورت نہیں بنایاورنہ نجانے کتنوں کے سینے میں مونگ دلتے ۔اگر ساس داغ مفارقت دےچکی ہوتی ہیں تو ان کی کمی باآسانی پوری کرتے ہیں۔

ہیرہ شوہر

دھلے دھلائے ہانکے سجیلے گورے چٹے چھیل چھبیلے چکنے چپڑے ہوتے ہیں زیادہ تر پھولوں کی شرٹ پہنے نظر آتے ہیں۔ جس راستے سے گزر جائیں، گھنٹوں خوشبو آتی رہتی ہے۔ ڈریسنگ ٹیبل دیکھ کر خواتین بھی شرما جائیں ۔ زیادہ تر وقت آئینے کے سامنے گزارتا ہے ، خوب صورت اور دھیمے لہجے میں بن بن کر بات کرتے ہیں ۔ طبیعت میں بے انتہا نفاست پسندی ہوتی ہے ۔ اپنے  بچوں کو بھیکبھی اپنے  قریب نہیں پھٹکنے دیتے لیکن افسوس کہ بیویاں زیادہ تر پھو ہڑ ملتی ہیں اور جلد ہی ہیرو کو زیرو میں تبدیل کر کے رکھ دیتی ہیں۔

مریل شوہر

انہیں عرف مریل میں کانگڑی پہلوان کہا مگر اپنے آپ کو سورما سے کم نہیں سمجھتے ۔ ہر کسی کے پھڈے میں ٹانگ اڑانے پر تیار ، ہر کسی سے پنگا لینے پر راضی ، جھگڑا کسی کا بھی یہ بیوی کے پیچھے چھپ چھپ کر پورے زور سے چیختے رہتے ہیں۔ اور جب سانس دھو نکتی کی طرح چلنے لگتا ہے تو بستر پر نڈھال ہوکر پڑ جاتے ہیں۔

زن مرید شوہر

جادو وہ جو سر پر چڑھ کر بولے ، بیوی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے دیوی اور پجاری والا معاملہ ہوتا ہے ،بیوی کو دیکھ دیکھ کے جیتے ہیں ۔اس کے بغیر حلق سے نوالہ نہیں اترتا ۔ ہر طرف جان صدقے دل نثا ر کرتے رہتے ہیں ، انہیں بیگم کا دم چھلا بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ ہر وقت پیپھے پیچھے رہتے ہیں۔۔

معروف شوہر

ہر وقت دھن دولت کی دوڑ میں مصروف ، دماغ ہر وقت دو اور چار اور ایک اور ایک گیارہ کے تانوں بانوں میں الجھا رہتا ہے ۔ بیوی بچوں کیلئے بالکل وقت نہیں ہوتا ۔ شرف ملاقات کبھی کبھی نصیب ہوتا ہے۔ کھڑے کھڑے آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ہر وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں ۔ کبھی بھولے سے بیوی کا حال احوال پوچھ لیں تو اس پر شادی مرگ کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔ آنکھیں پھٹ جاتی ہیں ، ہاتھ پاﺅں مڑ جاتے ہیں ۔ منہ سے جھاگ نکلنے لگتا ہے۔اور جب اپنی اصل حالت میں واپس آتے ہیں تو سارے مہمان واپس جا چکے ہوتے ہیں ۔۔

دل پھینک شوہر

ہتھیلی پر دل لیے پھرتے ہیں بڑے رنگین مزاج ہوتے ہیں خواتین کی موجودگی میں ان کی چہکاریں اور طبیعت کی جولانی عروج پر ہوتی ہے ۔بتیسی بڑی مشکل سے اندر جاتی ہے ۔ وقت بے وقت کامیڈی بھی کرتے ہیں ان میںاورتا ڑوشوہر میں بس اک لطیف سا فرق ہے وہ صرف آنکھوں سے کام لیتے ہیں اور کافی باہمت ہوتے ہیں۔ کیوپڈ کے تمام تیر ان کے پاس ہوتے ہیں چشم ماروشن دل ماشاد
کے مصداق ہر آنے والی کیلئے اپنے دل کے دروازے کھلے رکھتے ہیں۔

جنتی شوہر

ہم گناہ گاروں کی اتنی مجال کہاں کہ کسی کو جنت کی بشارت دے سکیں لیکن تمام شواہد کی روشنی میں سو فی صد کہا جا سکتا ہے کہ انشا اللہ العزیز جنت ہی میں جائیں گے کیوں کہ ان کے گناہو ں کی سزا بیوی کی صورت میں دنیا میں مل چکی ہوتی ہے۔ گائے کی طرح سیدھے سادے اور معصوم ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت صابر اور شاکر بھی ہوتے ہیں لہذا ساری زندگی کی کڑوی کسیلی باتوں اور ایک آدھ جھانپڑ کھانے کے باوجود صبر شکر کرتے گزار دیتے ہیں منہ سے کبھی ایک لفظ بھی نہیں لکلتے ۔ میدان حشر میں جب ہر طرف نفسا نفسی اور ہنگامہ ہوگا، تب ان کے چہرے کا اطمینان قابل دید ہوگا ۔ کیوں کہ ساری عمر گھر نے مید ان حشر کا نقشہ ہی پیش کیا ہوگا ۔ دنیا کی زندگی کوئی پل صراط پر چلنے سے کم گزری ہوگی۔