جمیل الدین عالی ‘

مجد اسلام امجد  بدھ 25 نومبر 2015

جمیل الدین عالی بھی‘ جنھیں ان کے احباب اور مداحین عالی جی کے محبوب اور محترم نام سے مخاطب کیا کرتے تھے کم و بیش 91 برس کی شاندار اور بھرپور زندگی گزارنے کے بعد ہر ابن آدم کی طرح ہماری آپ کی اس دنیائے فانی سے پردہ کر گئے ہیں وہ گزشتہ دو تین برس سے مسلسل علیل اور خانہ نشین تھے اس دوران میں ان کی ستر برس تک کی شریک سفر ہماری طیبہ بھابی بھی ان سے جدا ہو گئیں یادداشت بھی ان کی متاثر ہو چکی تھی لیکن اس کے باوجود ان کی بھرپور شخصیت کی محبت اور اپنوں کو دیکھ کر ہونٹوں پر کھلنے والی مسکراہٹ آخری دم تک ان کے ساتھ رہی میری ان سے آخری ملاقات چند ماہ قبل ان کے بون وسٹا (Bon Vista) والے فلیٹ میں ہوئی وہ وہیل چیئر پر تھے اور خاصے کمزور ہو چکے تھے مگر تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنی پرانی فارم میں واپس آ گئے اور ہم بہت دیر تک ماضی کے سائبان تلے گزرے لمحوں کی خوبصورت یادوں کے جلو میں رہے واپسی پر لفٹ میں برادر عزیز اشرف شاہین نے کہا کہ میرؔ نے غالباً ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے

اور ہم دیر تک ایسے لوگوں کو یاد کرتے رہے جن میں سے اب کم‘ بہت ہی کم باقی رہ گئے ہیں۔

عالی جی سے شعر و ادب کے حوالے سے پہلا تعارف تو طالب علمی کے دنوں میں ان کے دو شعروں کے توسط سے ہوا جنھیں میں آج بھی ان کے بہترین اشعار میں شمار کرتا ہوں لیکن اولین ملاقات ستر کی دہائی کے وسط میں کراچی کے ایک مشاعرے میں ہوئی اس وقت تو وہ صحیح معنوں میں جوان رعنا اور شہرت کی انتہائی بلندیوں پر تھے ان کا ترنم ایسا تھا کہ آدمی بس سنتا ہی رہ جائے میرے لیے یہ بات انتہائی خوش کن تھی کہ وہ نہ صرف میری شاعری بلکہ میرے کیے ہوئے فلسطینی شعرا کے منظوم تراجم اور کلاسیکی شعراء سے متعلق تنقیدی مضامین سے بخوبی آشنا تھے بلکہ انھوں نے کئی محفلوں میں ان کے بارے میں بہت کھل کر توصیفی کلمات بھی کہے احمد ندیم قاسمی صاحب کی طرح وہ بھی اپنے سے جونیئر تخلیقی جوہر کے حامل لکھنے والوں کی سرپرستی ان کو بتائے بغیر کرنے کے عادی تھے۔

جس کی ایک مثال ہمارا 1984میں کیا گیا تقریباً پونے دو ماہ طویل امریکا‘ کینیڈا اور برطانیہ کا وہ مشاعراتی دورہ تھا جس میں مجھے اور مرحومہ پروین شاکر کو ان کی ہم سفری اور شفقت سے لطف اندوز ہونے کے بھرپور مواقع ملے بہت بعد میں معلوم ہوا کہ ہم دونوں کو مدعو بھی انھی کی تحریک اور ضمانت پر کیا گیا تھا اور دیکھا جائے تو یہی سفر اس محبت بھرے اور مسلسل تعلق کی بنیاد بنا جو تا عمر قائم رہا اور انشاء اللہ کم از کم میری زندگی تک زندہ اور بار آور رہے گا اسی سفر کے دوران کسی جگہ میں نے ان کو ان کے وہ دو شعر سنائے جو طالب علمی کے دنوں سے میرے ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور آج بھی میں ان کی آنکھوں اور چہرے کی اس چمک کو محسوس کر سکتا ہوں جس کا تعلق تخلیقی صلاحیت اور اظہار کے ایک ایسے منطقے سے ہے جس کا حدود اربعہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا وہ دو شعر یہ ہیں

کچھ نہ تھا یاد بجز کار محبت اک عمر
وہ جو بگڑا ہے تو اب کام کئی یاد آئے
تم ایسے کون خدا ہو کہ عمر بھر تم سے
امید بھی نہ رکھوں نا امید بھی نہ رہوں!

عالی جی ایک زبردست اور متنوع انداز کی تخلیقی صلاحیت کے حامل قلم کار تھے ان کی غزلوں‘ دوہوں اور گیتوں سے تو ہم سب واقف ہیں لیکن نسبتاً بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ ایک اعلیٰ درجے کے سفرنامہ نگار‘ وژن اور مطالعہ کے حامل نقاد‘ مستقبیلات یعنی آنے والے دنوں کے امکانات پر گہری نظر رکھنے والے دانش ور اور ادب اور ادیب کے ساتھ کمٹڈ ایک باعمل اور متحرک رہنما اور کارکن بھی تھے جس کی بے شمار مثالیں ان کے اجتماعی اور ذاتی حوالوں سے بھی دیکھی جا سکتی ہیں عام لوگوں کے لیے وہ وطن کی محبت میں ڈوبے ہوئے ایک ایسے گیت نگار تھے جنہوں نے قومی اور ملی حوالوں سے ہمیشہ یاد رہ جانے والے گیت تخلیق کیے اور تاریخ کے ہر موڈ پر اپنے اور اپنی قوم کے جذبات کی ترجمانی کی

اے وطن کے سجیلے جوانو (جنگ ستمبر)
جیوے جیوے پاکستان (سقوط ڈھاکا کے بعد)
ہم تابہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں (اسلامی ممالک کی کانفرنس)

عالی جی کی بھرپور زندگی کا احاطہ اس محدود سے کالم میں تو کیا شاید ایک پوری کتاب میں بھی ممکن نہیں لیکن ان کی ایک صفت کا ذکر میں ضرور کرنا چاہوں گا کہ اس پر غور اور عمل کرنے سے ہم اپنے معاشرے کے اندر موجود بہت سے لسانی قومیتی‘ تہذیبی اور طبقاتی تعصبات سے نجات حاصل کر سکتے ہیں وہ پیدائشی طور پر خالص اہل زبان اور طبقاتی حوالوں سے (ریاستوں کے تمام تر زوال پذیر عناصر کے باوجود) نوابزادہ جمیل الدین عالی تھے لیکن ان کا شمار ان منتخب افراد میں ہوتا ہے جن کی عملی زندگی میں یہ دونوں پہچانیں اس نئے معاشرے میں ضم ہو گئیں جس کو ہم پاکستانی معاشرہ کہتے ہیں۔

وہ ان چند لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے قول و عمل دونوں حوالوں سے لسانی تعصبات کے خلاف جنگ کی ان کے احباب میں ایک کثیر تعداد غیر اہل زبان لوگوں کی تھی اور میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ انھوں نے بہت سے ایسے اہل قلم اور ان کے خاندانوں کے لیے بھی مدد فراہم کی جو وطن عزیز کے ایسے علاقوں سے تعلق رکھتے تھے جہاں مختلف زبانوں کے بولنے والے رہائش پذیر ہیں وہ ایک غیر متعصب‘ حسن پرست اور خیر کے طالب انسان تھے رب کریم ان کی کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور ان کی سوچ کو ہمارے درمیان زندہ رکھے۔


متعلقہ خبریں