برداشت کو کمزوری نہ سمجھا جائے

وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے پیر کو قوم سے ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو معصوم افراد کے مذہبی جذبات اکسانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور حکومت کی برداشت کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔
انھوں نے یہ خطاب لاہور میں دھماکے کے بعد اور اسلام آباد کے ریڈ زون میں حکومت کے خلاف دھرنے کے دوران کیا۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ دہشت گرد اپنی پناہ گاہوں اور انفراسٹرکچر سے محروم ہونے کے بعد اب درس گاہوں، تفریح گاہوں اور عوامی مقامات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
’ہم اپنے شہریوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب رکھ رہے ہیں اور اس کی آخری قسط ادا ہونے تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ دہشت گرد نرم اہداف (سافٹ ٹارگٹ) کو نشانہ بنا کر کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔
انھوں نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے مظاہرین کا نام لیے بغیر کہا کہ اشتعال، نفرتیں اور فرقہ واریت کو ہوا دینے والوں کو ضرور قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
’حکومت نے اب تک صبر و تحمل سے کام لیا ہے لیکن اسے کمزوری نہ سمجھا جائے۔ اشتعال پھیلانے، نفرتوں کی آگ بھڑکانے، لوگوں کو تکلیف دینے اور فرقہ واریت میں ملوث لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ امن، سلامتی، محبت اور اخوت کا دین ہے۔ اللہ اور رسول کے نام پر لاقانونیت اور بدامنی پھیلانا، جلاؤ گھیراؤ اور املاک کو نقصان پہنچانا کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔‘
وزیرِ اعظم پاکستان نے مزید کہا کہ 13 سال تک کسی نے دہشت گردی کے فتنے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے نہیں دیکھا، جب کہ ہم نے شروع ہی سے دہشت گردی کے خاتمے کا عزم کر لیا تھا اور اس ناسور کے خاتمے تک ہمارا مشن جاری رہے گا۔ ’عوام کے جان و مال کا تحفظ حکومت یعنی ہماری ذمہ داری ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ دہشت گردی عالمی چیلنج ہے، چاہے وہ استنبول، انقرہ، برسلز یا پیرس ہو۔ ’پاکستان میں قومی سلامتی کے اداروں کی کوششوں سے دہشت گردی کی وارداتوں میں نمایاں کمی آئی ہے اور کوئی سازش ہمیں آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔‘
انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے مددگار اور سرپرست جہاں کہیں بھی چھپے ہیں انھیں ڈھونڈ نکالا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین دہشت گردوں کے لیے تنگ کر دی گئی ہے۔
’ناکامی اور نامرادی دہشت گردوں کا مقدر ہے، باچا خان یونیورسٹی اور آرمی پبلک سکول اب بھی علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔‘