’’جنگل‘‘ کے بعد ’’سمّی‘‘دل سے لکھا، نور الہدی شاہ

فروری 16, 2017

قومی آواز۔ ویب ڈیسک – واشنگٹن — سعدیہ اسد
’’ونی ‘‘ جیسی رسم ختم ہونے کے بجائے فروغ پا رہی ہے، غیرت کو مذہب سے جوڑنا غلط ہے۔ یہ نفسیاتی بیماری ہے ۔معروف مصنفہ اور ڈراما نگارنور الہدی شاہ کی وائس آف امریکہ سے گفتگو۔
پاکستان کے ایک نجی ٹی وی سے 29جنوری کو شروع ہونے والے ڈرامے ’’سمیّ ‘‘ میں ’’ونی‘‘ کی فرسودہ رسم کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس سے قبل بھی اس قبیح رسم کے خلاف بہت کچھ لکھا گیا ہے تاہم پاکستان کے بعض حصوں میں تاحال یہ رسم نام نہاد ’’پنچائتی انصاف‘‘ کا حصہ ہے ۔

کسی خاندان کے مرد کے ہاتھوں ہونے والے جرم کی پاداش میں اس خاندان کی لڑکی کو متاثرہ خاندان کے کسی فرد سے اس کی مرضی اور منشا ٴ کے خلاف بیاہ دیا جاتا ہے۔ اور بعض اوقات تو لڑکی کی پیدائش سے قبل ہی اس کو ’’ونی‘‘ کر دیا جاتا ہے۔

اس ڈرامے کی مصنفہ نور الہدی شاہ ہیں جنہوں نے اس سے قبل بھی معاشرے کی کئی فرسودہ روایات کے خلاف قلم اٹھایا ہے ۔ وہ عورت کو ایک مشین کے طور پر پیش کرنے کے خلاف ہیں ۔ انہوں نے ہمیشہ اس کے حقیقی مسائل اور صحیح مقام دلانے کی کوشش کی ہے۔

نور الہدی شاہ نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کو بتایا کہ یہ ڈراما جان ہاپکنز یونیورسٹی کے خواتین کی صحت سے متعلق ایک پراجیکٹ کا حصہ ہے۔

نورالہدی شاہ نے کہا کہ جنرل ضیا ءکے دور سے معاشرہ نہ صرف انتہا پسندی کی طرف گیا ہے بلکہ مذہب کا انتہائی غلط اور معلومات کے بغیر استعمال ہوا ہے۔ سوسائٹی بہت زیادہ تنزلی کی جانب گئی ہے اور پاکستان میں بائیں بازو کا جو ایک ونگ تھا وہ بھی ہمیں نظر نہیں آتا ۔ آپ ہر روز ذرائع ابلاغ میں خبریں پڑھتے ہیں کہ غیرت کے نام پر بہنوں کو مار دیا جاتا ہے تو یہ غیرت ہے کیا ؟ اسے غلط طور پر مذہب سے جوڑ دیا جاتا ہے جبکہ یہ تو ایک نفسیاتی بیماری کا نام ہے جسے ہم غیرت کہتے ہیں۔ یہ بیماری پہلے سندھ میں کاروکاری کی صورت میں نظر آتی تھی اب پاکستان کے تمام علاقوں میں پھیل گئی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’’سمّی ‘‘ معاشرے پر ایک کمنٹ ہے ۔ میں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ لڑکیاں بھائیوں کی جاگیر نہیں ہوتیں بلکہ اپنا الگ وجود رکھتی ہیں ۔لیکن ان کی شادی ، محبت اور کسی بھی جائز حق کے درمیان بھائیوں کی نام نہاد غیرت آ جاتی ہے اور جب بات جائیداد میں ان کے شرعی حصے کی آتی ہے تو مذہب پیچھے اور غیرت سامنے آ جاتی ہے۔

پاکستانی معاشرے میں اس طرح کے دوہرے معیار اور بے انصافیاں دیکھ دیکھ کر میرے اندر جو الاؤ دہک رہا تھا وہ ’’سمّی‘‘ کی صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

نور الہدی نے بتایا کہ آج سے 23 برس قبل جب انہوں نے’’ جنگل‘‘ ڈرامہ لکھا تھا تب حالات اتنے برے نہیں تھے محض کچھ ہی جگہوں پر کاروکاری کی رسم موجود تھی ۔ اب تو جتنی زیادہ معلومات ہمیں ملتی ہیں اتنی ہی چیزیں ملٹی پلائی ہو رہی ہیں اور ہر دوسرے شخص کی غیرت بہن کے نام پر جاگ جاتی ہے۔ یعنی سوسائٹی اس سے کہیں پیچھے چلی گئی ہے جہاں آج سے تئیس ،چوبیس سال پہلے تھی۔ اور ہمارے علماء بھی اسلام کی صحیح تصویر پر بات نہیں کرتے۔اگر وہ یہ فرض ادا کریں اور اسلام کی درست تصویر پیش کریں تو جو بات سامنے آئے گی وہ یہ ہو گی کہ عورت جیسی عظیم مخلوق جسے بعض اوقات پاؤں کی جوتی اور طاقت کے زور پر دبا کر رکھا جاتا ہے اسے کتنے حقوق حاصل ہیں۔

ہمارے اس سوال پر کہ معاشرے کی ان فرسودہ روایات کے بارے میں قلم اٹھانا ،جن کی جڑیں بہت گہری ہوں معاشرے میں کس حد تک شعور اور آگہی کا سبب بنتا ہے؟

نور الہدی شاہ نے بتایا کہ بالکل فرق پڑتا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے سسرال کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب وہ اس خاندان کا حصہ بنیں تو یہاں لڑکیوں کو سات پردوں میں محض ڈاکٹر کے پاس جانے کی اجازت تھی۔ اور جب انہوں نے بات کی اور دلیل سے اپنا نقظہٴنظر واضح کیا تو سوچ بدلی اور آج سب لڑکیاں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں ۔

’’سمّی‘‘ کے بارے میں انہوں نے مزید بتایا کہ آج سے 23برس قبل انہوں نے ’’ جنگل‘‘ لکھ کر جو قلم رکھا تھا، یہ سمجھ لیں کہ ’’سمّی‘‘ کے لیے وہی قلم دوبارہ اٹھایا ہے۔ اور اس میں دوسری بات جو بتائی گئی ہے وہ یہ کہ مائیں ہمیشہ اپنے بیٹوں ہی کا ساتھ دیتی ہیں نہ صرف بیٹیوں کے قتل ، ونی یا کاروکاری کے معاملے میں بلکہ اگر کیس عدالت میں چلا جائے تو بلا تکلف بیٹیوں کا خون بیٹوں کو معاف کر دیتی ہیں ۔ہم نے اس ڈرامے میں یہ پہلو بھی اجاگر کیا ہے۔

نور الہدی شاہ سے ہم نے جب پوچھا کہ ایک اسے معاشرے میں اپنا الگ وجود منوانا کیا آسان تھا ؟

انہوں نے بتایا کہ آسان تو بالکل نہیں تھا لیکن ایک فائدہ یہ ہوا کہ میں زیادہ تر لاہور ، کراچی اور حیدر آباد رہی ، لیکن پھر بھی سسٹم میں رہی اور کئی سطحوں پر خود کو منوانا پڑا۔ مجھے جنگل کے وقت بھی بہت سہنا پڑا۔ میں سندھی اسٹوری رائٹر بھی ہوں اور اس معاملے میں کافی کچھ سہا ہے۔
آپ کی رائےک