محبت

قومی آواز ۔  تحریر۔ ارشد محمود ۔

ادارے کا مراسلہ نگار کی راے سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

محبت فطری بیالوجیکل جذبہ ہے۔ یہ انسان کی نفسی، جسمانی اورسماجی صحت کے لئے نہائت ضروری ہے۔ جوان عمری میں تومحبت کی انرجی طوفان خیز ہوتی ہے۔ محبت جیون کی بہار ہے۔ محبت کے بغیرزندگی خزاں رسیدہ ہوتی ہے۔ جہاں کوئی رنگ،کوئی ساز، خوشی کی امنگ نہ ہو۔ محبت جذبوں، احساسات اورجسموں کا ملاپ ہوتا ہے۔ محبت کی ساری صناعی قدرت کی ہی ودیعیت کردہ ہے۔ مختلف ادوار میں محبت پرسماجی پابندیاں انسانوں نے مختلف وجوہات کی بنا پرلگائی۔ محبت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ، مصیبت اورزمہ داری حمل کا ٹھہرجانا تھا۔ اس کا انفرادی اورسماجی ذمہ دارکون ہو۔ دوسرے ملکیت اور وراثت کا عمل آزادی محبت کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھا۔ ذاتی ملکیت کا جب آغاز ہوا، توعورت بھی مرد کی ملکیت میں آگئی۔ ‘خالص اوراپنی’ اولاد ضروری تھی۔ جووالدین اور آبا و اجداد کی وراثت کے حق دارہوں۔ پرانے نظاموں (قبائلی اورجاگیرداری) میں فرد کی ذات بھی سماجی ملکیت کے حصار میں آگئی۔ چنانچہ فرد مجبورمحض بن گیا۔ ایک پرذہ۔۔۔ قبائلی اور جاگیرداری اقداراورمفادات کا ضامن مذہب تھا۔ مولوی، شریعت نے انہی اقدار پراپنی مقدس مہر لگا دی۔ نکاح یا شادی کےبغیرمحبت نہیں ہوسکتی۔ ظاہرہے یہ سارے غیرفطری انسانی ساختہ بندوبست تھے۔ محبت ہونے کو کون روک سکتا تھا۔ اسے شادی بیاہ، رنگ و نسل اور سماجی پابندیوں سے کیا کام۔ چنانچہ پوری انسانی تاریخ میں ان قدغنوں سے لاپرواہ محبت ہوتی رہی۔ سماجی اور اخلاقی اقدار کی خلاف ورزی پرسخت سزائیں بھی مقرر کی جاتی رہی۔ محبت آزاد ہی ہوتی ہے، پابند محبت کوئی نہیں ہوتی۔ محبت پاک ہی ہوتی ہے،ناپاک محبت کوئی نہیں ہوتی۔ بچہ ہمیشہ حلال ہی پیدا ہوتا ہے۔ حرام کا بچہ کوئی نہیں ہوتا۔ حرام تب ہوجب قانون قدرت کے برخلاف پیدا ہوگیا ہو۔ پانچ ہزار سے لے کردس ہزار سالہ تہذیبی سفر کے بعد آج کی موجودہ جدید تہذہب تک انسان پہنچا ہے۔ جب فرد خاص طورپر نوجوان نسل کے محبت کرنے کے حق کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔مغرب میں کوئی قیامت برپا نہیں ہوئی۔ کوئی آسمان نہیں گرا۔۔۔ بلکہ تمام مذہبی معاشروں سے زیادہ بااخلاق زیادہ انسانیت ساز تہذیب بن کرسامنے آئی ہے۔ مذہبی تہذیب جہلا کی تہذیب ہوتی ہے۔۔ جہاں نہ عقل ہے، نہ انسانیت۔ قوانین اور اقدار انسانوں کے لئے ہوتے ہیں۔ انسان قوانین اور اقدار کے لئے نہیں ہوتے۔ ہمارے معاشرے کسی بھی لحاظ سے مغربی معاشروں سے گھٹیا سطح کے ہیں۔ آسمانی قوانین کا دعوی انسان نے ہی کیا تھا۔ کسی آسمانی خدا کے اس پردستخط نہ تھے۔ ویسے بھی کھربوں ستاروں کے بعد بھی کوئی خدا نامی چیز نہیں ملی کہیں تخت پربیٹھی ہوئی۔چنانچہ محبت ہرنوجوان کا خصوصی طور پرفطری حق ہے۔ مانع حمل ادویات نے فطرت کے سائڈ ایفیکٹس پر بھی انسان کوکنٹرول دے دیا ہے۔ اب آپ کی مرضی ہے، محبت کے نتیجے میں بچے کی پیدائش ہونے دیں نہ ہونے دیں۔ انسان عظیم ہے خدایا۔۔