میری گلک نواز شریف کو دے دیں

میری گلک نواز شریف کو دے دیں
منصور مانی

سانحہ گڈانی سماج مزدور

قومی آواز ۔ جب وہ باورچی خانے میں مجھے دبے پاؤں آ کر پیچھے سے گلے لگاتے تھے تو مجھے بہت اچھا لگتا تھا اور میں  ان سے  لپٹ جاتی تھی۔ امی اور بابا دونوں خود کو بھول کر مجھے گود میں لے لیتے تھے، مجھے چومتے تھے، مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔

مجھے ہمیشہ رات کا انتظار رہتا تھا۔ شام ڈھلتے ہی میری نظر دروازے پر ٹک جاتی۔ گلی میں ہونے والی چہل پہل اور گونجتی معدوم ہوتی آوازوں میں بھی مجھے اس کھڑ کھڑ کی آواز صاف سنائی دے جاتی تھی جو بابا کی موٹر سائیکل کے چین کور سے نکلتی تھی۔ بابا ہمیشہ اسی وقت آتے جب امی باورچی خانے میں برتن دھو رہی ہوتیں۔ بابا ہمیشہ کی طرح مجھے پیچھے سے گلے لگا لیتے، امی ہمیشہ بولتیں ہٹیں نا آپ کے پاس سے جلے ہوئے تیل کی بو آ رہی ہے۔ اور میں ہمیشہ کی طرح پیچھے سے جا کر بابا کی ٹانگوں سے لپٹ جاتی۔ بابا امی کتنا جھوٹ بولتی ہیں، مجھے تو کبھی آپ کے پاس سے بدبو نہیں آتی، پھر سب یہ کیوں کہتے ہیں کہ آپ کے پاس سے جلے ہوئے تیل کی بو آتی ہے؟
بابا ہنستے ہوئے کہتے، “بیٹا، دور سمندر میں ایک بہت بڑا جہاز ہے جس میں تیل کی جھیل ہے۔ ہم اس جھیل کو صاف کرتے ہیں۔ صفائی تو اچھی بات ہے نا؟” اور میں اپنی گردن نا سمجھی سے ہلا دیتی۔

میرے بابا بہت خوبصورت تھے، ان کے چہرے کا کالا رنگ مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ بڑی بڑی آنکھوں سے جب وہ غصہ کرتے تو میں ڈر جاتی مگر جانے کیوں بابا غصے میں ہونے کے باوجود جب بھی مجھے دیکھتے تو ہنس پڑتے۔ میرے بابا بہت بہادر تھے، امی بتاتی ہیں کہ بابا بڑے بڑے جہاز دنوں میں اپنے ہاتھوں سے توڑ دیتے تھے، مگر مجھے تو کبھی بھی ان کے بڑے بڑے ہاتھوں میں آ کر ڈر نہیں لگا۔ مگر امی کہتی تھیں کہ جہاز پر لوگ بابا سے ڈرتے تھے۔ بابا جہاز توڑنے میں بہت ماہر تھے اور سب مزدوروں کے انچارج تھے۔

بابا مجھے روز پانچ کا سکہ دیتے تھے جو امی مجھ سے یہ کہہ کر لے لیتی تھیں کہ یہ جمع کرو، میں تمہارے لیے ایک بڑی سی گڑیا لاؤں گی جس کے منہ میں دودھ کا فیڈر ہوگا، اور جب تم وہ فیڈر نکالو گی تو وہ روئے گی! کیا آپ نے کبھی روتی ہوئی گڑیا دیکھی ہے؟ کبھی ایسی گڑیا جس کے پاس دودھ کا فیڈر بھی ہو مگر پھر بھی وہ ہنسنے کے بجائے روئے؟ میں اب بہت روتی ہوں۔ مجھے اب بدبو بھی بہت آتی ہے۔ مجھے یاد ہے جب امی نے میرا ہاتھ تھام کر گھر کی دہلیز پار کی تھی، مجھے اس دن کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا، امی مجھے لے کر ایک ایسی جگہ پہنچیں جہاں بے پناہ بدبو تھی۔ ایسی بدبو مجھے جب آئی تھی جب امی نے ایک بار کھانا بناتے وقت سارا گوشت جلا دیا تھا۔ مگر یہ بدبو ایسی تھی کہ مجھے اُلٹی آ رہی تھی۔ سامنے ریت پر چند لوگ لیٹے تھے جن پر چادر ڈھکی ہوئی تھی۔

ایک آدمی امی کو دیکھ کر اُن کی طرف بڑھا۔ اس کے میلے اور تیل میں لت پت کپڑوں سے مجھے گھن آ رہی تھی۔ اس نے امی سے کہا، “ایمبولینس نہیں ہے کوئی۔”
مجھے اس آدمی سے ڈر لگ رہا تھا، امی کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے مگر وہ ڈر نہیں رہی تھیں۔ اس آدمی نے کہا، “اپنے پیروں پر چلتا ہوا یہاں تک آیا، پورا بدن جھلس گیا تھا، اس نے کئی مزدوروں کی جان بچانے کی کوشش کی۔ جب یہ جہاز سے اُترا تو کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس پر اسے اور باقی لوگوں کو یہاں تک لایا جاتا۔ ہم کچھ نہیں کر سکے۔ یہاں کچھ ہے ہی نہیں! قریب ترین ہسپتال بھی یہاں سے 100 کلومیٹر دور ہے!
امی نے آگے بڑھ کر چادر ہٹائی!
سامنے بابا تھے۔ ان کے چہرے پر جگہ جگہ سفید نشان تھے، پورے سیاہ بدن پر سفید لال ہوتے نشان بہت بد نما لگ رہے تھے، ان میں سے پانی بھی ٹپک رہا تھا۔ مجھے تو اپنے بابا کالے ہی اچھے لگتے تھے۔

اس آدمی نے کہا، میں کچھ کرتا ہوں، بہت لوگ مر چکے ہیں۔ لاش لے جانے کے لیے کوئی بندوبست نہیں۔ ایمبولینس تو نہیں ہے، ایک گدھا گاڑی ہے میں اس میں چارپائی ڈال کر دے دیتا ہوں۔ ہسپتال تو جانا نہیں ہے اب، اور گھر تو پاس ہی ہے! ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا، میری ناک میں گویا بدبو کا ایک ریلا گھس گیا، اور میں بے ہوش ہو گئی!
مجھے اب گڑیا بالکل بھی نہیں چاہیے۔
بابا نہیں ہیں۔ مجھے اب پانچ کا سکہ کوئی نہیں دیتا۔ پانچ کے سکے سے یاد آیا۔
کیا آپ مجھے نواز شریف کا ایڈریس دے سکتے ہیں؟
میری گلک میں پورے 235 روپے جمع ہو چکے ہیں۔
میں اپنی پوری گلک انہیں دینا چاہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں وہ مجھ سے میری گلک لے لیں، مگر ہمیں ایمبولینس دے دیں۔
جب میں گدھا گاڑی پر اپنے بابا کو لے کر آ رہی تھی تو جھٹکوں سے بابا کا گوشت بکھر رہا تھا۔ اگر ایمبولینس ہوتی تو ہم آرام سے گھر پہنچ جاتے۔ ایمبولینس ہوتی تو شاید بابا کو وقت پر ہسپتال پہنچایا جا سکتا۔ کیا پتا بابا بچ جاتے۔
میری گلک نواز شریف کو دے دیں!

(یہ ایک فرضی کہانی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔)

تعارف : صحافی، کالم نگار