بے غیرت امریکی‎

بے غیرت امریکی‎

قومی آواز ۔ تحریر۔ ساجد انصاری ۔

ادارے کا مراسلہ نگار کی راے سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

چودہ فروری 2010 کی صبح میری امریکی گرل فرینڈ کیٹی کا ٹیکسٹ میسج آیا تھا کہ شام کو اسے گھر سے لینا ہے, پھر ویلنٹائن کی شام ساتھ گذاریں گے۔ میں صبح سے یہ سوچ رہا تھا کہ کیسی بے غیرت قوم ہے, بوائے فرینڈ کو گھر پر بھی کوئی بلاتا ہے؟ میں نے پاکستان میں اب تک جتنی بھی لڑکیوں سے ملاقاتیں کیں, چھپ کر کی تھیں۔ کبھی یونیورسٹی سے کلاس اسکپ کرکے سفاری پارک کے کسی درخت کے پیچھے, کبھی کسی انٹرنیٹ کیفے میں, کبھی کسی بیچلر دوست کے گھر پر۔ میری ہر گرل فرینڈ ہمیشہ نقاب میں ہی ہوتی تھی, سب تو مومنات ہرگز نہیں تھیں لیکن موٹر سائیکل پر ڈیٹ پر جانے میں میرا ہیلمٹ اور انکا نقاب پردے کا کام دیتا تھا, دیکھنے پر ایسا ہی لگتا تھا جیسے جمعیت کا کوئی کارکن اپنی باجی کو کالج سے گھر لیجا رہا ہو۔ مناسب جگہ پہنچ کر میں مولوی برقع کی طرح ہیلمٹ سے باہر آجاتا اور وہ کسی نئی دلہن کی طرح نقاب الٹ دیا کرتی تھیں۔ ایک تجربہ کار دوست کے مشورے پر کبھی کبھی سبزی والی پلاسٹک کی باسکٹ موٹرسائیکل کے ہینڈل پر لٹکانے سے تو پولیس کو شک بھی نہیں ہوتا تھا۔
یہ سب باتیں یاد آئیں تو غصہ بھی آیا کہ کتنی ہی گرل فرینڈز سے صرف مناسب جگہ نہ ملنے کی وجہ سے ملاقاتیں نہ ہوسکیں۔ خیر کیٹی کی دوستی نے سب گلے دور کردیے تھے, بس مسئلہ صرف یہی تھا کہ یہ امریکی حسینائیں وقت بہت ضائع کراتی ہیں۔ پچھلے ایک ماہ سے ہم ڈیٹنگ کر رہے تھے اور بات آگے نہیں بڑھ رہی تھی, جبکہ پاکستان میں تو ایک مہینے میں سات جنموں کی قسمیں بھی کھالی جاتی ہیں۔ یا پھر کوئی تیسری مل جاتی ہے۔
پانچ بجنے میں بیس منٹ باقی تھے, میں نے اپنے روم میٹ کا پرفیوم شرٹ تو کیا بنیان تک میں چھڑک لیا۔ گرو جی عمران ہاشمی کی تصویر کو پرنام کرکے آشیرباد لیا اور کیٹی کے گھر کی بیل بجادی, راستے میں ایک گیس اسٹیشن سے ایک ڈالر کا لال گلاب لیکر جیکٹ میں پہلے ہی چھپا لیا تھا۔ ایک موٹے ادھیڑ عمر کے گورے نے دروازہ کھولا اور کہا, “یس؟”
“وہ۔۔ اھم اھم”, میں نے گلا کھنکارتے ہوئے کہا, “وہ مجھے کیٹی سے ملنا تھا, ہم ساتھ پڑھتے ہیں وہ اسائنمنٹ کے سلسلے میں۔۔”۔ میں نے تھوک نگلنے کی کوشش کی۔
“اوہ, اچھا, اندر آجاو”, موٹے نے راستہ دیتے ہوئے کہا اور میں گھر میں داخل ہوگیا۔ گھر میں ایک سلجھی ہوئی سی گوری خاتون کچن میں کھانا پکانے میں مصروف تھی, مجھے دیکھ کر رومال سے ہاتھ پونچھتی ہوئی کچن سے باہر آگئی۔
“سجید! تم سجید ہو نا, کیٹی جس کے بوائے فرینڈ؟ ” اس نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
“ساجد, سا جد” میں نے اپنے نام کی ہجے پر زور دے کر کہا, “ہم ساتھ پڑھتے ہیں, وہ اسائنمنٹ کے سلسلے میں۔۔”
“مجھے کیٹی نے بتایا تھا تمھارے بارے میں, تم سے ملکر خوشی ہوئی”, بڑھیا نے پوری بتیسی نکال کر کہا۔ “یہ اسٹیون ہیں, کیٹی کے والد”, اس نے تعارف کروایا اور ہم نے ایک بار پھر ہاتھ ملایا۔
“کیٹی شاید شاور لے رہی ہے, تم ایسا کرو اسی کے کمرے میں چلے جاو, اوپر جس کمرے سے میوزک کی آواز آرہی ہے وہ اسی کا ہے”, اسٹیون نے کہا۔
“جی بہتر”, میں نے جیکٹ میں چھپے گلاب کو سنبھالتے ہوئے کہا جس کی لمبی ڈنڈی نیچے سے باہر نکل رہی تھی اور سیڑھیوں کی طرف چل پڑا۔
پیچھے بڑھیا کی سرگوشی سنائی دی, “اس کے پاس گلاب ہے, کتنا پیارا لڑکا ہے نا”۔
اور میں سوچ رہا تھا کہ ان لوگوں کو یقیناً کوئی غلط فہمی ہوئی ہے, کہیں یہ مجھے اپنا ہونے والا داماد تو نہیں سمجھ رہے؟ تعجب ہے, نہ میرا سانولا رنگ دیکھا نہ مزہب پوچھا بس سیدھا اپنی بیٹی کے کمرے میں بھیج دیا, بڑے بے غیرت لوگ ہیں۔
اتنے میں کیٹی خود نیچے آگئی, مجھ سے گلے مل کر اس نے خوشی خوشی کہا, “ڈیڈی ہم باہر جا رہے ہیں رات کو دیر سے گھر آونگی”۔
“اوکے, مزے کرو”, باپ نے بیئر کین کھولتے ہوئے کہا اور ٹی وی کے آگے سوفے میں دھنس گیا۔ یقیناً سوتیلا باپ ہوگا, میں نے خود سے کہا, بے غیرت سالا۔ اسکے بعد کیٹی کے ساتھ ویلنٹائن کی رات گزاری, رات کو اسے گھر چھوڑا اور اسکے جانے کے بعد میں نے غور کیا کہ کیا پاکستان میں ایسا ممکن ہے کہ ہم اپنی گرل فرینڈ کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور زندہ بچ پائیں؟ مجھے گورنمنٹ کالج برائے خواتین کی انیلہ یاد آگئی جسے نیپا چورنگی پر میرے ساتھ اسکوٹر پر اسکے چھوٹے بھائی کے دوست نے دیکھ لیا تھا, وہ اسکے بعد کبھی میرے ساتھ نہیں گئی۔
آج کئی سال گزر گئے, کیٹی سے کب کا بریک آپ ہو گیا اور اب میں خود ایک بیٹی کا باپ ہوں۔ آج میری گڑیا میری گود میں سوگئی تھی اور میں اپنے فون میں فیس بک پر گٹر گروپ کے سوالات پڑھ رہا تھا جو کچھ یوں تھے,
“کیا آپ اپنی بیٹی کو ویلنٹائن ڈے پر اسکے بوائے فرینڈ کے ساتھ بھیجیں گے؟ کیا آپ یہ برداشت کریں گے؟ کیا آپ وہ برداشت کریں گے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اور میرا جواب “ہاں” میں تھا۔
ہاں میں اپنی بیٹی کو ویلنٹائن ڈے پر اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ جانے سے نہیں روکوں گا۔ ہرگز نہیں روکوں گا, اسکو اپنی زندگی جینے دوں گا, اسکو کسی سے ملنے کے لیے نقاب اوڑھنے کی یا ہم سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہوگی, وہ اعتماد کا رشتہ جو اولاد اور والدین میں ہوتا ہے جس میں کوئی کسی سے جھوٹ بول کر یا چھپ کر کوئی کام نہیں کرتا, اسے قائم رکھوں گا۔ اور رہی بات قدم بہک جانے کی, تو تربیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے جو اگر اچھے انداز سے کی جائے تو قدم کبھی نہیں بہکتے۔
بات یہ ہے کہ غیرت, شرم, حیا وغیرہ یہ سب مقامی اصطلاحات ہوتی ہیں, یہ ہر معاشرے کی اپنی ہوتی ہیں اور سوائے چند مشترک چیزوں کے, ایک ملک کے معاشرتی جذبات دوسرے ملک میں فٹ نہیں بیٹھتے۔ انگریزی میں غیرت لفظ کا کوئی ترجمہ نہیں ہے, قریب قریب الفاظ شیم اور جیلسی ہیں, جن کے ترجمے شرم اور حسد بنتے ہیں۔ شرم کسی گناہ یا غلطی کی صورت میں ہوتی ہے اور حسد اپنی مطلوبہ شے کسی دوسرے کے پاس دیکھ کر۔ اسکے علاوہ غیرت جیسا لفظ کہیں نہیں ملا, تو کیا یہ لوگ بے غیرت ہیں؟ امریکا کی تاریخ پڑھنے پر پتا چلتا ہے کہ قریب کوئی سو سال پہلے تک اٹالین مہاجرین اور آئرش مہاجرین میں اگر کسی کا کوئی افیئر پکڑا جاتا تھا تو خوب ہنگامہ ہوتا تھا بالکل جیسے ہمارے یہاں ہوتا ہے۔ لیکن پھر تہذیب اور تمدن نے عورت کو انسان تسلیم کیا اور اسے اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار دیا۔ اسکے باوجود آج بھی جب کوئی لڑکی ڈیٹ پر جاتی ہے تو اسکی ماں کو پتا ہوتا ہے کہ وہ کہاں گئی ہے اور اس لڑکی کے پرس میں کچھ اہم سامان بھی ماں ہی رکھتی ہے۔ اسکے علاوہ بیک گراؤنڈ چیک بھی ہوتا ہے اور لڑکی کے ماں باپ لڑکے کا انٹرویو بھی لیتے ہیں۔ غلط آدمی ملنے پر لڑکی کو سمجھاتے ہیں, کمرے میں بند نہیں کرتے۔ زندگی کے اہم فیصلے کرنے میں اسکی مدد کرتے ہیں, چاہے تعلیم ہو, شادی یا ڈیٹنگ, اپنے بچوں کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیتے ہیں, جو کہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔
جنسی طور پر محروم معاشروں میں لوگ بسوں میں, بازاروں میں گھٹنے اور کہنیاں ٹچ کرکے ذہنی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کتے کی طرح ہڈی کو گھورتے ہیں اور پھر یہی مثال دے کر عورت کو ہڈی اور خود کو کتا ثابت کرتے ہیں۔ گھر سے باہر کی دنیا کو خود غیر محفوظ بنا کر یہ کہتے ہیں کہ عورت گھر میں ہی محفوظ ہے۔ اسکے برعکس وہ معاشرے جہاں برابری کا تصور ہے, مرد اور عورت ایک ہی سوئمنگ پول میں نیم برہنہ لباس میں نہا بھی رہے ہوتے ہیں تو کوئی تحریک پیدا نہیں ہوتی۔
اپنے بچوں پر اعتماد کریں, انہیں جنسی بیماریوں کی آگاہی دیں اور وہ جن لوگوں سے ملتے ہیں ان کی چھان بین رکھیں, اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ساج