مستحکم رہنے کی خواہش یہ لوگ اپنے آپ کو ہر طرح سے مستحکم رکھنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اس کے لئے یہ اپنی زندگی کی منصوبہ سازی کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت کم ایسے ہیں جو کسی شیڈول کے مطابق زندگی نہ گزاریں۔ ان میں سے اکثر مالی طور پر مستحکم رہنے کے لئے ایسے شعبوں کا انتخاب کرتے ہیں جن سے یہ خوب دولت کما سکیں۔ اگر یہ فضول خرچی نہ کریں تو بڑی رقم پس انداز کر لیتے ہیں۔ صفائی پسند بڑکیں مارنا عجیب رویہ منصوبہ ساز ہمدرد اچھے منتظم
یہ اپنی ہمت کو بھی مستحکم رکھنا چاہتے ہیں اس سلسلے میں یہ:
اپنی غذا کا خیال رکھتے ہیں۔
باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں۔
سگریٹ اور دیگر منشیات سے دور رہتے ہیں۔
کھیلوں اور دیگر صحت افزا سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں
یہ لوگ اپنے رشتوں کو بھی مستحکم رکھنا چاہتے ہیں، اسی لئے سب لوگوں سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں ۔
ان کی بے شمار خامیوں کی وجہ سے ان کے دوست کم ہی ہوتے ہیں لیکن وہ لوگ ان کے ضرور دوست بن جاتے ہیں جو ان کی عادتوں کو سہہ سکیں، یہ اپنے ان دوستوں سے بہت مخلص بھی رہتے ہیں۔
یہ لوگ صفائی پسند ہوتے ہیں۔ یہ اپنے دفتروں، گھروں اور دیگر استعمال کی جگہوں کو صاف ستھرا رکھتے ہیں، اگر ان کے آفس کا چپڑاسی چھٹی پر ہو تو یہ خود آفس کی صفائی کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ گندی جگہوں اور گندگی سے انہیں نفرت ہوتی ہے۔ یہ ان سے اجتناب کرتے ہیں۔ ان کے کپڑے ہمیشہ صاف ستھرے ہوتے ہیں، یہ خود کو بھی صاف ستھرا رکھتے ہیں اور ان لوگوں سے ہی ملنا پسند کرتے ہیں جو صفائی پسند ہوں۔
ان لوگوں میں اکثر ایسے ہیں جو بڑکیں مارنے لگتے ہیں۔ ایسا اکثر ہوتا رہتا ہے۔ یہ ایسی ایسی باتیں لوگوں سے کرتے ہیں کہ وہ بظاہر حیرانی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن جب یہ لوگ چلے جاتے ہیں تو ان کے بارے میں تبصرہ کرتے ہیں کہ یہ بڑکیں مارنے والا شخص ہے۔
اس طرح کی باتیں کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب یہ عملی طور پر کچھ نہیں کر پاتے تو بے سکون ہو جاتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ ان سے مرعوب رہیں ایسے میں ان کے پاس تسکین حاصل کرنے کا واحد راستہ یہی ہوتا ہے کہ یہ بڑکیں ماریں۔ ان کے اس طرح کے رویے سے انہیں کوئی خاص فائدہ تو ہوتا نہیں ہے ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ یہ بڑک مار مشہور ہو جاتے ہیں۔
ان کے لئے ضروری ہے کہ:
* خود کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھیں۔
* یہ ضرور سوچیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں کیا لوگ اس پر یقین کر رہے ہیں یا نہیں؟
* کوشش کریں کہ لوگ آپ کے کارناموں سے مرعوب ہوں انہیں صرف باتوں سے مرعوب کرنے کی کوشش نہ کریں۔
ان لوگوں کا ایک عجیب رویہ کبھی کبھار لوگوں کے سامنے آتا ہے کہ یہ اچانک بالکل بے فکر ہو جاتے ہیں، ان کا جوش ختم ہو جاتا ہے اور لوگ حیران ہوتے ہیں کہ ان کے رویے میں اچانک تبدیلی کیوں آ گئی ہے لیکن بھلا لوگ اس بارے میں کیا جان سکتے ہیں کیونکہ اسد افراد خود اپنے اس رویے کے بارے میں نہیں جان سکتے بس یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ان کی فطرت کا ایک حصہ ہے۔
تقریباً ہفتہ یا دس بارہ دن ان کی یہی کیفیت رہتی ہے ان کے کام ادھورے پڑے رہتے ہیں یہ لوگوں اور کاموں سے لاتعلق رہتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں کسی بات کی فکر نہیں ہے۔ اگر ان کا نقصان بھی ہو رہا ہوتا ہے تو یہ اس کی فکر نہیں کرتے لیکن پھر یہ اپنی اصلی حالت کی طرف آنے لگتے ہیں۔ ان کا جوش واپس آنے لگتا ہے یہ لوگوں سے بات چیت شروع کر دیتے ہیں انہیں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ ان کا بڑا نقصان ہوا ہے۔
ان لوگوں کو چاہئے کہ:
ایسی کیفیت کے لئے تیار رہیں اور دوسروں کو بتا کر رکھیں کہ اگر ایسا ہو تو وہ ان کے زیر تکمیل کاموں کو جاری رکھیں۔
دوستوں سے کہہ رکھیں کہ اگر ان کا رویہ اچانک بدل جائے تو اس کا برا نہ مانیں کیونکہ فطری طور پر ان کے ساتھ ایسا معاملہ ہے
ان لوگوں میں منصوبہ سازی کی بڑی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ تمام باتوں کا جائزہ لینے کے بعد ایک منصوبہ ترتیب دیتے ہیں اور اس پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔ ایسے منصوبوں میں اکثر رکاوٹیں بھی آتی ہیں اور ناکامیوں کا سامنا بھر کر نا پڑتا ہے لیکن ان لوگوں کے سامنے نہ تو رکاوٹیں کوئی اہمیت رکھتی ہیں اور نہ ہی یہ ناکامیوں کو خاطر میں لاتے ہیں بلکہ یہ ہر حال میں اپنا منصوبہ مکمل کرنا چاہتے ہیں۔
یہ جو بھی منصوبہ بناتے ہیں اس سے کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور اٹھانا چاہتے ہیں جبکہ دیگر برجوں سے تعلق رکھنے والے افراد ایسے بھی ہیں جو صرف اپنے شوق کی خاطر کسی منصوبے کی تکمیل چاہتے ہیں یا پھر ایسے لوگ بھی جو اکثر منصوبوں کو ادھورا چھوڑ کر کسی اور جانب متوجہ ہو جاتے ہیں لیکن اسد افراد جو بھی منصوبہ بناتے ہیں جب تک اسے پایۂ تکمیل تک نہ پہنچا دیں سکون سے نہیں بیٹھتے۔ اگر منصوبہ کامیاب ہو جائے تو ٹھیک ہے اور اگر ناکام ہو جائے تو یہ ہاتھ چھوڑ کر نہیں بیٹھتے بلکہ اس کی خامیوں کو تلاش کرتے ہیں اور ایک بار پھر اس کی تکمیل میں لگ جاتے ہیں۔
ان کی منصوبہ سازی کی صلاحیت سے جو لوگ واقف ہوتے ہیں وہ اپنے کسی معاملے میں ان سے مشورہ لینا ضرور پسند کرتے ہیں۔ اسد افراد ان لوگوں کو بڑے پر خلوص مشورے دیتے ہیں۔
اب تک ہم نے ان لوگوں کی جن خوبیوں اور خامیوں کا تذکرہ کیا ہے اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سفاک اور خطرناک قسم کے لوگ ہیں، ایک حد تک تو یہ بات درست ہے لیکن یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ان لوگوں میں ہمدردی اور رحم دلی کا کوئی نام و نشان نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت ہمدرد لوگ ہوتے ہیں لیکن یہ دوسروں کی طرح ذرا ذرا سی بات پر ہمدردی نہیں دکھاتے۔ عام حالات میں ان کا رویہ سخت اور سفاک ہی نظر آتا ہے لیکن ان کی ہمدردی خاص مواقع پر کھل کے سامنے آ جاتی ہے مثلاً اگر کہیں ایکسیڈنٹ ہو جائے تو یہ بھیڑ کو چیرتے ہوئے متاثرین تک پہنچ جاتے ہیں اور بغیر کچھ سوچے سمجھ ان کی مدد شروع کر دیتے ہیں۔ جب تک یہ اپنے اس کام کو مکمل نہ کر لیں یہ چین سے نہیں بیٹھتے۔
اس طرح ان کے علم میں اگر یہ بات آ جائے کہ ان کے محلے میں کوئی مستحق شخص رہتا ہے یا کوئی ایسا بچہ ہے جس کا نام فیس نہ ادا کرنے کی وجہ سے سکول سے کاٹا جا چکا ہے تو ان کی ہمدردانہ جبلت جاگ اٹھتی ہے۔ ایسے میں یہ اسد فرد جس کے بارے میں لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ یہ نہایت سفاک اور بے رحم ہے، سب سے پہلے بڑھ کر اُس مستحق فرد کی مدد کرتا ہے یااس بچے کی فیس ادا کر کے اُس کا نام پھر سے اسکول میں لکھواتا ہے۔
یہ افراد بہت غصہ ور اور سفاک تو ہوتے ہیں اور انہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان سے بچ کر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے لیکن یہ ایک حیرت ناک بات ہے کہ ان لوگوں میں در گزر کرنے کی بڑی خوبی ہوتی ہے۔ یہ جب کسی سے دشمنی پر آ جائیں تو اسے نیست و نابود کر دینے کے لئے بے چین ہو جاتے ہیں لیکن اگر وہ شخص آ کر اُن سے معافی مانگ لے تو ان کا سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ اُن کا دل موم ہو جاتا ہے، یہ اُسے معاف کر دیتے ہیں لیکن یہ معافی انہیں ایک ہی بار ملنے کا امکان ہوتا ہے یا پھر دو بار لیکن اس سے زیادہ مرتبہ یہ معاف کرنے کے قائل نہیں ہوتے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جن باتوں پر عام لوگ مشتعل ہو جاتے ہیں، اسد افراد انہیں ہنس کر ٹال دیتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کی ذہنی سطح بہت اونچی ہوتی ہے، یہ خود کو کسی بادشاہ سے کم تصور نہیں کرتے، دوسرے لوگ ان کی نظر میں ان کی رعایا ہوتے ہیں اور ایک بادشاہ سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی سوچ اور شان کے مطابق کسی بھی بات کو ہنس کر ٹال دے لیکن ساتھ ہی ان کی شاہانہ سوچ کی وجہ سے ان سے یہ بھی توقع کی جا سکتی ہے کہ یہ کسی ایسی بات پر چراغ پا ہو جائیں جو دوسروں کے لئے معمولی ہو۔ در اصل یہ اپنے الگ انداز سے سوچتے ہیں۔
ہم نے اسد افراد کی بہت سی خامیوں کا تذکرہ کیا لیکن ہم یہ بار بار لکھ چکے ہیں کہ یہ حاکمانہ ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کی یہ ذہنیت جہاں ان کے لئے کئی نقصانات کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے وہیں انہیں اپنی اس جبلت سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ یہ کسی بھی شعبے میں ایک اچھے منتظم بن سکتے ہیں۔ چونکہ ان میں دوسروں کو محکوم رکھنے کی پیدائشی خواہش موجود ہوتی ہے لہٰذا یہ اس انداز میں سوچتے ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ کس سے کس طرح کام لیا جا سکتا ہے لہٰذا جب انہیں کسی شعبے میں لیڈر بنا دیا جاتا ہے اور اختیارات ان کے پاس آ جاتے ہیں تو انہیں اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملتا ہے۔ یہ اپنے تابع لوگوں کی نفسیات کا جائزہ لیتے ہیں اور ان سے ان کی نفسیات کے مطابق کام لیتے ہیں۔
یہ جانتے ہیں کہ :
* ان کے تابع لوگوں کا مزاج کیا ہے۔
* ان میں سے کتنے تیز مزاج کے ہیں اور کتنے نرم مزاج کے۔
* کون ان کے سامنے زبان درازی کر سکتا ہے۔
* کس پر سختی کی ضرورت ہے۔
* کون نرم رویہ سے اچھا کام کرے گا۔
* کتنے ایسے لوگ ہیں جنہیں کام سے نکالنا ضروری ہے۔