پاکستان میں بعد ازحادثاتی مرگ انسانی اعضاء عطیہ کرنے کا قانون موجود ہے تاہم طبی ماہرین کے مطابق خطے کے دیگر مسلم ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں یہ رجحان اب بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ محتاط اندازوں کے مطابق مملکت پاکستان میں ہر برس قریب ڈیڑھ لاکھ انسانوں کی موت جسمانی اعضاء جیسے کہ دل، جگر، گردوں یا پھیپھڑوں میں نقص کے باعث ہوجاتی ہیں۔ پاکستان میں سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن اعضاء کی پیوندکاری اور بالخصوص گردوں کی صفائی یعنی ڈائیلئسس کا سب سے بڑا اور قدیم مرکز ہے۔ معروف سرجن ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی نگرانی میں یہ مرکز گزشتہ دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے عوامی شعبے میں مفت خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ ان دنوں اس ادارے کے تحت عوام میں بعد از حادثاتی موت جسمانی اعضاء عطیہ کر دینے کا رجحان بڑھانے کی مہم چلائی جارہی ہے تاکہ قیمتی انسانی جانیں بچائی جاسکیں۔ ایس آئی یو ٹی کے ذرائع کے مطابق ملک میں اس وقت بھی کم از کم چالیس ہزار مریض مختلف ہسپتالوں میں اس بات کے منتظر بیٹھے ہیں کہ کسی کا عطیہ کیا ہوا دل، گردہ یا جگر انہیں لگا دیا جائے اور وہ صحتیاب ہوسکیں۔ ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ادیب رضوی نے اعضاء عطیہ کرنے کے حوالے سے موجودہ رجحان کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا،” اس وقت کوئی رجحان ہے ہی نہیں، ہمیں عوام اور حکومت دونوں نے مایوس کیا ہے اور جن لوگوں کے پاس پیسے ہیں وہ باہر سے جاکر اپنا علاج کروالیتے ہیں تو یہاں اعضاء عطیہ کرنے کا رجحان ابھی شروع ہی نہیں ہوا” . طبی ذرائع کے مطابق مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور ایران جیسے ممالک میں بھی جسمانی اعضاء عطیہ کرنے کا رجحان بڑی حد تک موجود ہے۔ ایران میں سالانہ بنیاد پر اعضاء کی پیوندکاری کے دو سو سے زائد آپریشن کیے جاتے ہیں جبکہ چین میں تقریبا ہر مرنے والے کے اعضاء محفوظ کر لیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ڈاکٹر ادیب کے ادارے میں روزانہ کی بنیادوں پر اپنے مختلف مراکز میں ساڑھے سات سو مریضوں کا بنا کسی فیس کے ڈائیلئسسز کیا جاتا ہے، جو ان کے مطابق مجموعی ملکی ضرورت کا محض 25 فیصد ہے جبکہ بقیہ آبادی کو یہ سہولت کم از کم مفت یا سستے داموں میسر ہی نہیں۔ ماہرین طب کے مطابق پرائیوٹ طبی مراکز میں عطائی ڈاکٹرز ایک بیماری کے علاج کے لیے مختلف کمپنیوں کی متعدد ادویات تشخیص کر رہے ہیں اور یوں ادویات کے بے تحاشہ اور بے جا استعمال سے گردے ناکارہ ہونے اور ہیپاٹائٹس کا مرض بڑھنے کے خدشات موجود ہیں۔ ایس آئی یو ٹی کے مطابق اب تک محض چار پاکستانیوں نے بعد از حادثاتی موت اپنے اعضاء عطیہ کیے ہیں، جن میں سے ایک کراچی کے نوجوان طالب علم نوید انور تھے۔ آگہی مہم کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نوید انور کی بہن شازیہ انور نے کہا کہ انہیں اپنے بھائی پر فخر ہے۔ وہ کہتی ہیں،” اپنے پیارے کے اعضاء عطیہ کرنا ہرگز کوئی آسان کام نہیں اس کے لیے صبر، بڑے دل اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب یہ معلوم ہو کہ یہ قدم ایک اور انسانی زندگی بچانے کے لیے ہے تو اللہ تعالی ہمت حوصلہ اور بڑا دل عطا کر دیتا ہے” ۔ ایس آئی یو ٹی کی آگہی مہم کے دوران معروف شخصیات جیسی کہ فریال گوہر، سلطانہ صدیقی، حمید ہارون اور کئی دیگر نے بعد از مرگ اپنے جسمانی اعضاء عطیے کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ اداکارہ فریال گوہر کے بقول ان کے چھیالس سالہ والد کا انتقال بھی گردے ناکارہ ہونے کے سبب ہوا تھا اور اب ان کی خواہش ہے کہ پاکستان میں کسی کا بھی عزیز اس وجہ سے نہ بچھڑے ۔ سندھ انسٹیٹٰوٹ آف یورولوجی کے مطابق بالخصوص سندھ صوبے میں اعضاء کی پیوندکاری سے متعلق قانون سازی کے بعد اب غیر قانونی طور پر انسانی اعضاء کی خرید و فروخت اور اسمگلنگ کا راستہ روکا جاسکے گا اور قانونی طریقے سے مستحقین کی مدد کی جاسکے گی۔