قومی آواز ۔ لاہور ایک دلچسپ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ محبوب کی بیوفائی کا زیادہ صدمہ اگرچہ خواتین کوہوتا ہے تاہم خواتین اس صدمے سے زیادہ جلد سنبھل جاتی ہیں۔ اس امرکا انکشاف نیویارک کی بنگمیٹن یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق میں ہوا ہے۔ محققین کے مطابق خواتین کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بیوفائی کا صدمہ جھیل نہیں پائیں گی تاہم چوٹ کھانے کے بعد جلد ہی وہ اس صدمے سے باہر آنے لگتی ہیں اور پھر جلد ہی ان کی زندگی میں کوئی دوسرا مرد آجاتا ہے۔ دوسری جانب مردوں کو بیوفائی کا صدمہ اندر ہی اندر کھاتا ہے اور وہ طویل عرصے تک اس دکھ کو بھلا نہیں پاتے ہیں۔
تحقیق میں شامل کریگ مورس تحقیقی نتائج کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مردوں کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ انہیں سب کچھ دوبارہ نئے سرے سے شروع کرنا پڑے گا تاکہ وہ کچھ دوبارہ حاصل کرسکیں جسے انہوں نے کھو دیا ہے لیکن اس سے بھی بھیانک انکشاف یہ ہوتا ہے کہ ہونے والا نقصان ناقابل تلافی ہے۔ اس نتیجے تک پہنچنے میں بنگمیٹن یونیورسٹی کی تحقیقی ٹیم اور یونیورسٹی کالج لندن نے مشترکہ طور پر پانچ ہزار سے زائد اراکین سے پوچھ گچھ کی تھی۔ ان افراد کا تعلق96ممالک سے تھا۔ اس کا مقصد بریک اپ کے جسمانی و جذباتی نقصانات کا جائزہ لینا تھا۔
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ بریک اپ کے بعد خواتین جسمانی طور پر بھی زیادہ شدید طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہیں ۔ وہ اس جذباتی کیفیت کو بھی زیادہ شدت سے محسوس کرتی ہیں جو کہ مردوں کو عموماً کم شدت سے محسوس ہوتا ہے۔ اس تحقیق سے محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ درحقیقت مرد کبھی بھی بیوفائی کا صدمہ سہہ نہیں پاتے ہیں، وہ اسے بھولنے اور زندگی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم وہ اسے کبھی بھی سو فیصد بھول جاتے ہیں۔
کریگ مورس مرد و خواتین کے جذبات میں اس فرق کی وجہ دونوں کے رویوں میں فرق کو قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی تعلق میں خواتین زیادہ کوشش کرتی ہیں اور زیادہ وقت، جذبات کی زیادہ سرمایہ کاری کرتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ساتھی کے انتخاب میں بھی زیادہ محتاط ہوتی ہیں اور وہ مردوں کی نسبت زیادہ اعلیٰ خصوصیات کے حامل مردوں کو تلاش کرتی ہیں۔ ایسا شخص جب انہیں چھوڑ جاتا ہے تو وہ اس صدمے کو بھی زیادہ شدت سے محسوس کرتی ہیں۔
کریگ مورس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ نوجوانوں کی اکثریت تیس برس کی عمر تک کم از کم تین تعلقات کے خاتمے کا صدمہ سہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے مرد نوکریاں کھوتے ہیں، طلبا یونیورسٹی،کالج سے کلاسز کو چھوڑتے ہیں اور انفرادی سطح پر ایسے رویئے بھی اپناتے ہیں جو ان کی ذات کیلئے بھی نقصان دہ ہوتے ہیں۔
یہ تحقیق ایوالوشنری بی ہیویریئل سائنسزمیں شائع ہوئی ہے