عید الفطر
کھانے پر توجہ مرکوز رکھنا درست عمل نہیں
رمضان المبارک میں سحری میں اٹھنے کی عادت ہوجاتی ہے اور عید کی صبح بڑی جلدی آنکھ کھلتی ہے،جیسا کہ عام طور سے دودھ میں بھیگے ہوئے خرموں سے دن کا آغاز ہوتا ہے۔ عید کی نماز سے فارغ ہوکر حیثیت کے مطابق شیر خرما، سویوں کا زردہ اور ملائی اور دودھ سویاں کھا ئی جاتی ہیں پھر منہ کا مزہ بدلنے کیلئے کباب ، سموسہ اور چٹنی کی طرف توجہ دی جاتی ہے ۔پھر عید ملنے والوں کی آمد شروع ہوجاتی ہے اور ہر ایک کے ساتھ کچھ نہ کچھ کھانا آداب میزبانی ہے۔پھل خشک میوے،چائے ،مٹھائی،برف ملائی ،شیر اور سویوں سے خاطر تواضع کی جاتی ہے ۔
ہمارے ملک میں مٹھائیوں کی صنعت اپنے شباب پرہونے کی وجہ سے تواضع تو آسان کردی ہے، لیکن کھانے والوں کو بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے کہ نہ کھایا جاسکتا ہے اور نہ چھوڑا جاسکتا ہے، ہر آنےوالے کے ساتھ تھوڑا تھوڑا کھا کر پیٹ اس بری طرح بھر لیا جاتا ہے کہ بالکل جگہ باقی نہیں رہتی، مکر ایک دو بجے دوپہر کے کھانے کا اہتمام کیا جارہا ہوتا ہے،روزہ کھول کر رات ہی کو گوشت اور دودھ کی خریداری کر لی جاتی ہے تا کہ عید کے دن تو اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچکریں،چناچہ صبح سے جو کھانے پک رہے تھے انکی باری آتی ہے۔ پلاﺅ ،بریانی،متنجن،مزعفر،زردہ،قورما ان کے بعد شاہی ٹکڑے،فیرنی و غیرہ(بعض اوقات کے مطابق بعض دفعہ اوقات سے زیادہ)دستر خوان کی زینت ہیں۔ کسے کھائیں کسے چھوڑے یہاںتک کہ پیٹ اناڑی کی بندوق کی طرح بھر جاتا ہے۔
اب اس ہنگامے سے فارغ ہوکر رشتے داروں اور دوستوں کے گھر پارٹی کرنا تو لازمی بنتا ہے۔ ہر جگہ کچھ نہ کچھ میزبانوں کے خوشنودی کیلئے حلق سے اتارنا ہے۔ جب تھک ہار کر واپس گھر پہنچتے ہیں تو پھر رات کے کھانے کی تیاری ہے کہ کچھ لوگوں کو رات کے کھانے پر بلایا ہے۔ کھانے کے ساتھ انصاف اوراپنے ساتھ بے انصافی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے پیٹ نہیں بلکہ کنگہگار کی قبر ہے۔ اب ایک بے چینی ہی ہے۔ ہاضمے کی دواﺅں کی تلاش ہے اور طبیب سے یہ خواہش کی نفخ اور گیس کا ازالہ کیاجائے۔ بسا اوقات طبیب کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ ایسے بیماروں کوکس طرح نپٹا جائے۔
پرانے زمانے کے رومی تو اس صورت میں اپنے حلق میں انگلی ڈال کر سب کچھ الٹ دیا کرتے تھے کہ سکون ملے اور پیٹ ہلکا ہو،(شاید اس لیے بھی کہ جگہ خالی ہوتو دوبارہ پیٹ بھرنا شروع کیا جائے)۔طبی طور پر انسان اور جانور سب کوکھانے کے بعد نیند آتی ہے۔ اس ہاضمے کے فعل مدد ملتی ہے۔ مشہور ہے کہ جنوبی امریکا اژدھا اپنے شکار کو سالم ہڑپ کر جاتا ہے اور اس کے بعد کئی دن تک سوتا رہتا ہے جو غالبا اس الحاظ سے بھی ضروری ہے کہ پیٹ میں جب سالم بکرا ہو،تو حرکت کرنا بھی محال ہے۔ایک جگہ وہ اس قدر کھا گئے ان میں سے ایک نو وہیں جاں بحق ہوگیا ،میزبان نے ازداہ ہم دردی دوسرےسے
پوچھا،آپ کا پیٹ بھر گیا، ان صاحب نے اپنے الٹے ہوئے ساتھی کی طرف اشارہ کرکے کہا بھرے پیٹ والے تو ادھر پڑے ہیں۔
بھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ نیند آنا بھی مشکل ہے کہ معدے کے اوپر جو پردہ تنبوں کی طرف آویزاہ ہے پیٹ کو سینے سے جدا کرتا ہے اور لیٹنے میں معدے کو دباتا ہے جس سے کھان حلق میں آتا معلوم ہوتا ہے عجیب سی بےچینی ہوتی اور نیند میں خلل پڑتا ہے۔اگرآرام کرسی پر سویا جائے تو کھانا سینے میں نہیں آئے گا لیکن صرف یہ خلاف تہذیب ہے بلکہ اس طرف سونے میں خطرہ ہے کہ گردن، پاﺅں،ہاتھ،اکڑ نہ جائیں اور نہ خشک نہ ہوجائے۔
کہا جاتا ہے کہ چہل قدمی کھانے کے بعد مفید ہے کہ اس سے کھانا ہضم ہونے میں مدد ملتی ہے۔مشہورانگریزی کہاوت ہے کہ رات کو کھانے کے بعد ایک میل چلنے سے آدمی تندرست خوش حال اور صحت مند ہوتاہے اب سوال یہ کہ عید کے دن اس قدر پر خوری کے بعد کیا کرنا چائیے،آرام یا چہل قدمی،ورزش کس وقت کی جائے،کھانے سے پہلے یا بعد؟یا کھانے کے بعد آرام کیا جائے۔اس سوا ل کا جواب معلوم کرنے کیلئے آج سے دوڈھائی ہزار سال قبل باز شہنشاہ فریڈرک ثانی نے قسطنطیہ میں خوفناک تجربہ کیا۔دو آمیوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا ان میں سے ایک کو آرام دوسرے کو ورزش کرائی گئی،پھر ان دونوں کو قتل کرادیا، اور ان کے معدے کا معنہ کیا گیا جس نے ورزش کی تھی اس کے معدے میں ابھی تک غذا اسی طرح باقی تھی ،چنانچہ یہبات تو ثابت ہے کہ پرخوری کے بعد سخت ورزش نہ کی جائے۔کھانے کے بعد فطری خواہش آرام و نیند کی ہوتی ہے لیکن ہلکی پھلکی چہل قدمی کرنے میں کوئی حرج نہیں سوائے اس لوگوںکے جو عمر رسیدہ ہیں یا چہل قدری کے عادی نہیں یا دل کے مریض ہیں کہ بعد از طعام چہل قدمی سے دل کے رسد خون کو کم ہو کر دل پر خراب اثر پڑ سکتا ہے۔رمضان کی کم خوارگی کے بعد ایک دم کھانا خصوصا مرغن کھانا بوجھ بن جاتا ہے۔ کھانے کے بعد خون کی گردش بعد کی طرف رجوع کرتی ہے اور پھر دل میں خون کی کمی اور انجائنا یا حملہ قلب کا اندیشہ ہوتاہے۔ یہ طبیبوں کا بھی عام تجربہ ہے خصوصا جو امراض قلب سے اختصاص رکھتے ہیں کہ عید کے دنوں میں امراض قلب کی وارداتیں زیادہ ہوتی ہیں اس لیے مشورہ یہ کہ روز ہاتھ رک کر کھاجائے۔ مناسب تو یہ ہے کہ الائچی ،عطر یااور ہلکے پھلکے پکوانوں پر اکتفا کیا جائے۔