قومی آواز ۔ نوجوان جو کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی ملک میں زیادہ تعداد افرادی قوت کی بے مثل صورت میں ترقی کے پہیہ کو رواں دواں رکھتی ہے۔ ان کا زیادہ پڑھا لکھا اور فنی تعلیم وتربیت کا حامل ہونا مسابقت کے اس دور میں ملک کو کہیں اونچا مقام مہیا کرتا ہے۔ اسی لئے تو دنیا بھر میں نوجوانوں کی صلاحیتوں سے بہتر استفادہ کی ہر ممکن سعی کی جاتی ہے۔ اور ایسی پالیسیوں کی تشکیل اور اقدامات کا سہارا لیا جاتا ہے جو نوجوانوں کے لئے زیادہ سے زیادہ تعمیری احساسِ شرکت کا باعث بنیں ۔ چاہے صنعت وحرفت، زراعت و لائیوسٹاک ، صحت وتعلیم، روزگار، سائنس و ٹیکنالوجی ، امن اور سیاست کا شعبہ ہو ان سب میں نوجوانوں کی عملی شرکت کو یقینی بنانے پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ Age Group چاہے کوئی بھی ہو پاکستان کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا میں نوجوانوں کے دونوں Age Groups کے حوالے سے پانچویں بڑی تعداد کا مالک ملک ہے۔ اس کے علاوہ ملکی آبادی میں نوجوانوں کی آبادی کے تناسب کے حوالے سے پاکستان اقوام متحدہ کی مقرر کردہ Age Group کے مطابق دنیا میں 15 ویں نمبر پر ہے اور ملک کی 21.5 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ دولتِ مشترکہ کی تعریف کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی مجموعی آبادی میں نوجوانوں کی آبادی کا تناسب 30.7 فیصد ہے اور پاکستان اس تناسب کے حوالے سے دنیا بھر میں 16 ویں نمبر پر ہے۔ اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم پاکستان میں نوجوانوں کی حقیقی آبادی کا تعین کریں تو یو ایس سینسز بیوروکے انٹرنیشنل ڈیٹا بیس کے مطابق 30 جون 2014 ء تک پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد اقوامِ متحدہ کے طے شدہ Age Group کے مطابق 42.26 ملین اور دولت ِمشترکہ کے متعین کردہ نوجوانوں کے Age Group کے مطابق 60.13 ملین ہے۔ ا س وقت دنیا میں 15سے24 سال کی عمر کے نوجوانوں کا 3.54 فیصد اور15 سے29 سال کی عمر کے نوجوانوں کی کل تعداد کا 3.38 فیصد پاکستانی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ملک کی آبادی کا تبدیل ہوتا ہوا یہ Demographic Profile اس بات کا متقاضی ہے کہ نوجوانوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے اور اُن کی صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔ لیکن ماضی قریب تک اس اثاثہ سے فیض یاب ہونے سے کسی حد تک چشم پوشی اختیار کی جاتی رہی۔ لیکن جیسے ہی ملک میں ووٹر کی کم ازکم عمر کو 18 سال کیا گیا۔ ملک کے سیاسی منظر نامے میں نوجوانوں نے یکدم اہمیت حاصل کرنا شروع کردی۔ اور 2013 ء کے عام انتخابات کے لئے استعمال ہونے والی ووٹرز کی فہرستیں(Electoral Rolls ) بھی اس حقیقت کی تائید کررہی ہیں۔ ان فائنل فہرستوں کے مطابق ملک میں17.5 ملین رجسٹرڈ ووٹرز 18 سے 25 سال کی عمر کے گروپ پر مشتمل تھے۔ یعنی پاکستان بھر کے رجسٹرڈ ووٹرز کا 20.35 فیصد 18 سے 25 سال کے Age Group کے حامل ووٹرز پر مشتمل تھا۔ جن کے ووٹوں کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی تقریباً 20 فیصد نشستیں جیتی جا سکتی ہیں۔ اور اگر ہم ایک پل کے لئے دولت مشترکہ کے نوجوانوں کے Age Bracket کو 29 کی بجائے 30 سال تک محیط کرلیں تو پھر پاکستان کی قومی اسمبلی کی تقریباً ایک تہائی نشستیں صرف عمر کے اس گروپ یعنی 18 سے30 سال تک کے ووٹرز کے ووٹوں کے بل پر حاصل کی جاسکتی ہیں۔ 2013ء کے عام انتخابات کی ووٹر فہرستوں میں ملک کے18 سے 25 سال کی عمر کے تقریباً 55 فیصد نوجوانوں اور18 سے 30 سال کی عمر کے تقریباً 62 فیصد نوجوانوں کی بطور ووٹر رجسٹریشن موجود تھی۔ جس نے سیاسی میدان میں ہل چل پیدا کردی اور ذرا سوچئے! اگر یہ اندراج 100 فیصد کے لگ بھگ ہو جائے اور نوجوان اپنے حق ِ رائے دہی کا مکمل استعمال کریں تو پھر ملک کی کوئی بھی سیاسی قوت نوجوانوں کو مطمئن کئے بغیر اقتدار کے ایوانوں تک واضح اکثریت میں نہیں پہنچ پائے گی۔ پاکستان جہاں اس وقت یوایس سینسز بیورو انٹرنیشنل ڈیٹا بیس کے اعدادو شمار کے تجزیہ کے مطابق ہر پانچویں فرد کی عمر 15 سے24 سال اور ہر چوتھا فرد 15 سے29 سال کی عمر کا حامل ہے، اپنی سیاسی اور Human Capital اہمیت کے باوجود ملک کے نوجوان ابھی بھی گونا گوں مسائل کا شکار ہیں ۔ پاکستان اپنی افرادی قوت کے اس اثاثہ کو معاشی اثاثوں میں بدلنے کامتمنی تو ہے ہی لیکن ابھی اسے نوجوانوں کی فلاح وبہبود کے حوالے سے بہت سفر طے کرنا ہے اوریہ سفر سماج سے معاش تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی ادارہ محنت کی گلوبل ایمپلائیمنٹ ٹرینڈز فار یوتھ 2012 نامی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 66.4 فیصد نوجوان خواتین اور 10.9 فیصد نوجوان مرد نہ توروزگار سے وابستہ ہیں اور نہ ہی تعلیم یا ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جب آپ کے نوجوانوں کے48 فیصد حصہ پر مشتمل نوجوان لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد ناخواندہ اور فنی تربیت سے نا آشنا ہوگی تو پھر آبادی کے اس بڑے حصے کو معاشی بہتری کے لیے استعمال کرنا کیوں کر ممکن ہوگا؟ دوسری طرف ملک میں توانائی کا بحران روزگار کے مواقعوں کو مجموعی طور پر محدود اور غیر یقینی صورتحال کا شکار بنائے ہوئے ہے۔ یہ Brain Drain دیہات سے چھوٹے شہروں اور پھر بڑے شہروں اور دیگر ممالک میں منتقلی کی صورت میں موجود ہے۔ جس کی کچھ جھلک نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز اسلام آباد کے ان اعدادوشمار کے تجزیہ سے نظر آتی ہے کہ اس وقت پاکستان کے 15 سے24 سال کی عمر کے نوجونواں کا 37.66 فیصد شہروں میں آباد ہے۔ 1998ء میںیہ تناسب30.47 فیصد ہوا کرتا تھا۔ 1998ء سے 2014ء تک ملک کے شہروں میں 15 سے 24 سال کے نوجوانوں کی تعداد میں 62.87 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اسی عرصہ کے دوران ملک کے دیہی علاقوں میں نوجوانوں کی آبادی میں18.14 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ حمل اور زچگی سے وابستہ پیچیدگیاں دنیا بھر میں 15 سے 19 سال کی لڑکیوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ پاکستان میں اس کی شدت کا اندازہ پاکستان ڈیمو گرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2006-07 کے ان حقائق سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں20 سال سے کم عمر مائوں میں زچگی کے دوران شرح اموات 242 فی لاکھ کیسز ہے۔ اور یہ سب کیوں نہ ہو جب ملک میں 20 سال سے کم عمر مائوں کے 51 فیصد زچگی کے کیسز گھروں پر ہی ہوتے ہوں اوراُن کے 37.1 فیصد کیسز روایتی دائیاں کریںتو پھر سب کچھ ممکن ہے۔
پاکستان کے لئے نوجوانوں کے اس اثاثہ کی اہمیت اور بھی دوچند ہے کیونکہ اس وقت دنیامیں نوجوانوں کی پانچویں بڑی تعدادکے حامل ملک کا نام پاکستان ہے۔ اقوام متحدہ 15 سے24 سال کے Age Group کو بین الاقوامی طور پر نوجوانوں کی آبادی کا گروپ قرار دیتا ہے۔ جبکہ پاکستان دولت ِمشترکہ کے متعین کردہ نوجوانوں کے Age Group 15 سے 29 سال کو نوجوانوںکی آبادی کا گروپ تصور کرتا ہے۔
لیکن ملک میں نوجوانوں کی تعداد اور آبادی میں اُن کے تناسب کے حوالے سے اکثر حقیقت کے برعکس اعدادوشمار کا سہارا لیا جاتا ہے اور کہنے والے بڑی آسانی سے ملک کی آدھی آبادی یا کبھی تو اُس سے بھی زائد کو نوجوانوں کی آبادی قرار دے دیتے ہیں۔ یا پھر نوجوانوں کے Age Group کا تعین اپنے طور پر کرکے اُن کی آبادی میں رود و بدل کرتے رہتے ہیں اور اکثر ایسا ان فورمز پر بھی دیکھنے میں آتا ہے جہاں اس طرح کی غلطی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اس سلسلے میں نوجوانوں کے Age Group کی بین الاقوامی طور پر متعین شدہ اقوامِ متحدہ یادولتِ مشترکہ کی حدکا استعمال اور مستند حوالہ جات کا استعمال اس غلطی کے امکان کو ختم کر دیتے ہیں۔
اور اگر ہم خطے کی صورتحال کا جائزہ لیں تو جنوب ایشیاء جہاں نوجوانوں (15-24) کی عالمی تعداد کا 26.43 فیصد موجود ہے۔ اس خطے کے 8 ممالک کے نوجوانوں (15-24)کی کل تعداد کا 13.41 فیصد پاکستانی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اسی طرح افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان ، بھارت ، پاکستان،مالدیپ، نیپال اورسری لنکا میںدنیا بھر کے ( 15 سے29 ) نوجوانوں کا 25.64 فیصد آباد ہے اور پاکستان میں سارک ممالک کے مذکورہ نوجوانوں کی کل آبادی کا 13.20فیصد موجود ہے۔
نوجوانوں کی ترقی کے حوالے سے اقدامات اور پالیسیاں ملک کی سیاسی جماعتوں کے منشوروں میں ماضی کے مقابلے میں زیادہ جگہ پانے لگیں۔ حکومتی سطح پر نوجوانوں کے لئے زیادہ اقدامات ہونے شروع ہوئے۔ دسمبر2008 ء میں پاکستان کی قومی یوتھ پالیسی سامنے آئی۔ نوجوانوں کے لئے انٹرن شپ پروگرام کا آغاز، سکلز ڈویلپمنٹ پروگرامز، لیپ ٹاپ سکیم، صوبوں کی سطح پر یوتھ فیسٹیول اور اب وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام نوجوانوں کی صلاحیتوں سے استفادہ اور اُن میں اضافہ کے لئے کئے جانے والے اقدامات کا آغازِ سفر ہے۔ کیونکہ ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں نے اس حقیقت کا جلد ہی ادرا ک کرلیا ہے کہ اب نوجوان ووٹرز ہی اقتدار کے ایوانوں تک اُن کی رسائی میں اہم کردار ادا کریں گے۔
کیونکہ 2013 ء کے انتخابات کے وقت ملک کے رجسٹرڈ ووٹرز کا 35 فیصد 18 سے 30 سال کی عمر کے حامل ووٹرز پر مشتمل تھا۔ NADRA Electoral Rolls Booklet 2012 کے مطابق 2013 ء کے عام انتخابات کے موقع پر صوبہ پنجاب نوجوان ووٹرز کے حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل رہا۔ جہاں پاکستان بھر کے رجسٹرڈ نوجوان ووٹرز کا 56 فیصد موجود تھا۔ اس کے بعد 22 فیصد نوجوان ووٹرز کا تعلق سندھ، 15 فیصد کا خیبر پختونخوا سے، 4 فیصد بلو چستان سے، 2 فیصد فاٹا اور ایک فیصدرجسٹرڈ نوجوان ووٹرز کا تعلق اسلام آباد سے تھا۔
نوجوانوں کا ووٹنگ لسٹوں میں100 فیصد اندراج اور انھیں اپنے حقِ رائے دہی کے استعمال کے لئے قائل کرنے کے سلسلے میں الیکشن کمشن آف پاکستان، سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کو اپنا بھرپور کردار ایک الیکشن سے دوسرے الیکشن تک متواتر جاری رکھنا ہوگا۔ تاکہ انتخابی عمل میں نوجوانوں کی بطور نمائندہ اور ووٹر دونوں طرح سے شرکت بہتر قیادت کو سامنے لانے کے حوالے سے اپنا اہم کردار پوری طرح ادا کر سکے۔
سماجی ناہمواریاں، دہشت گردی، امن وامان کی ابتر صورتحال، توانائی کا بحران، انسانی حقوق کی پامالی،مفت اور معیاری تعلیم کے مواقعوں کی کمی، کرئیر کونسلنگ کا نہ ہونا اور سب سے بڑھ کر نوجوانوں کی رائے کو اہمیت نہ دینے جیسے عوامل نوجوانوں کے سماجی سطح پر مسائل کا پیش خیمہ بن رہے ہیں جو آگے چل کر نوجوانوں کے معاشی مسائل پر منتج ہو رہے ہیں اور اُن کے لئے روزگار کے مواقع محدود اور غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو رہے ہیں۔کیونکہ لیبر مارکیٹ میں کامیابی سے داخل ہونے کے لئے نوجوانوں کی تعلیم اور ٹریننگ بہت ضروری ہے۔ جبکہ پاکستان میں یونیسیف کی رپورٹ دی اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرن 2014 کے مطابق 15 سے24 سال کی عمر کے نوجوانوں میں خواندگی کی شرح لڑکوں میں79 فیصد اور لڑکیوں میں 61 فیصد ہے۔
جس کی وجہ سے نوجوانوں کی نمایاں تعداد بے روزگار ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ 2014 کے مطابق’’ پاکستان میں 15 سے24 سال کی عمر کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 7.7 فیصد ہے‘‘۔ یہ امر قابل تشویش ہے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی نوجوانوں کی بڑی تعداد کم پیداواری، عارضی اور اس طرح کے دیگر کاموں/ نوکریوں میں Trap ہے جو اُن کی توقعات کو پورا نہیں کرتیں اور اُن کے لئے ایسے مواقع پیدا نہیں کرتے جو انھیں زیادہ اچھی، مستقل اور زیادہ اجرت کی حامل پوزیشنز دلاسکیں۔
اس کے علاوہ ملک میں نوجوانوں کے لئے مناسب روزگار کے مواقعوں کی کمی کے بہت سے منفی نتائج سٹریٹ کرائمز، چوریوں، اغواء برائے تاوان ، دہشت گردی ، تخریب کاری اور منشیات کے استعمال اور فروخت کے واقعات کی صورت میںآج ہم ان کا سامناکر رہے ہیں۔اس لئے بہتر مستقبل کے سپنے آنکھوں میں سجائے نوجوانوں کی دیہات سے شہروں اور ایک ملک سے دوسرے ملک منتقلی کا عمل جاری ہے۔ جسے ہم Brain Drain کی اصطلاح کے استعمال سے یاد کرتے ہیں۔
ملک میں نوجوانوں کا ایک اور توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ ملک میں موجود نوجوانوں کی تقریباً آدھی تعداد پر مشتمل لڑکیوں کے حوالے سے ہمارے معاشرتی رویئے بھی قابل توجہ ہیں۔ انھیں آگے بڑھنے کے کم مواقع مہیا کرنا اور ایسا کرنے کی بنیاد ان کی شادی کو بنانا ہمارا ایک عمومی طرزعمل بن چکا ہے۔کیونکہ کافی قابل اور لائق بچیوں کی شادی کم عمری میں ہی کر دی جاتی ہے اور پھرکم عمری میں ماں بننا بچیوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ اُن کی جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے۔
پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 کے مطابق پاکستان میںاس وقت 15 سے 19 سال کی لڑکیوں کا 14 فیصد شادی کے بندھن میں بندھ چکا ہے۔ جبکہ 20 سے 24 سال کی عمر کی لڑکیوں کا 49 فیصد شادی شدہ ہے اور 15 سے 19 سال کی 5.4 فیصد شادی شدہ خواتین پہلے بچے کی ماں بن چکی ہیں جبکہ 2.5 فیصد اپنے پہلے حمل سے ہیں۔
ملک میں نوجوانوں کے معاشی مسائل کو حل کرنے اورمعیاری تعلیمی سہولیات تک اُن کی رسائی کو یقینی بنانے کے حوالے سے وزیر اعظم یوتھ پروگرام کے ذریعے کو ششوں کا آغاز کیا گیا ہے۔ لیکن قومی، صوبائی اور مقامی ترقی کے عمل میں نوجوانوں کی رائے کو شامل کرنے جیسے اقدامات پر ابھی کام ہونا باقی ہے۔ اس حوالے سے قومی یوتھ پالیسی میں وزیر اعظم کی سربراہی میں نیشنل یوتھ کونسل کے علاوہ سنٹرل یوتھ کونسل اور سٹی یوتھ کونسل کے قیام کا ذکر تو موجود ہے لیکن ابھی ان کی کوئی ظاہری صورت سامنے نہیں آئی۔ اگرچہ یوتھ پارلیمنٹ کی صورت میں ملک میں نوجوانوں کا ایک فورم موجود ہے۔ لیکن اس فورم کو قومی فیصلہ سازی کے عمل کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے تاکہ قومی اور علاقائی امورمیں نو جوانوں کی رائے کو بھی شامل کیا جا سکے۔
ان سماجی اور معاشی مسائل کی موجودگی میں اور بہتر و پرسکون زندگی کا خواب آج پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت کو بیرونِ ملک قسمت آزمائی کی ترغیب دے رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں مقامی علاقوں اور ملکی سطح پر Human Capital Flight یعنی Brain Drain کا عمل جاری ہے۔ اگرچہ نوجوانوں کی ہجرت کے معاشرے پر مثبت اور منفی دونوں طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن ہمیں ملک کے وسع تر مفاد میں اپنے Brainکو ملک سے Drain ہونے سے روکنا ہے تاکہ وہ پاکستانی معاشرہ میں اپنا بھر پور تعمیری کردار ادا کرسکیں