اسٹیبلش منٹ’ففتھ جنریشن وار’ کی خیالی تھیوری کی ناکامی سے فرسٹریٹ ہوکر سوشل میڈیا پرحملہ آور ہونے جا رہی ہے

قومی آواز:ٹورٹو
قومی خبریں 08 جنوری ، 2019

تحریر ۔ ارشد محمود
” سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے پرسخت کارروائی”
پی ٹی آئی اپنی حقیقت میں فاشسٹ پارٹی ہے۔ یہ غیرجمہوری اور ریاستی سطح کی سازشوں سے اقتدار میں آئی ہے۔ عوام کے ووٹوں سے یہ منتخب نہیں ہوئی۔ اس لئے اسے کسی بھی جمہوری ماڈرن سول سوسائٹی کی اقدار کا پاس بھی نہیں ہے۔ یہ ریاست کے اندر جو ‘ریاست’ ہوتی ہے، یہ اس کے مفادات کی نگران حکومت ہے۔ جمہوری معاشرے میں ڈائیلاگ بنیادی شرط ہے سماجی ارتقا کے لئے۔ جب کہ پاکستان میں مکالمہ پر کفر، غداری، نسل پرستی کے لیبل لگا دیئے جاتے ہیں۔ ماورائے عدالت اٹھا لیا جاتا ہے، مار دیا جاتا ہے۔ عمرانی ٹولا اسی سوچ کا نمائندہ ہے۔ یہ خود دھرنوں، غلیظ زبان ، پی ایم ہاوس اور پارلیمنٹ پرحملہ آور ہوکراقتدار میں آئے ہیں۔ انہیں کسی جمہوری اور انسانی حقوق کا کوئی پاس نہیں۔ یہ عوام کے نہیں، خفیہ مقتدرہ کے نمائندے ہیں۔
اختلاف رائے رکھنے اور اپنے شہری قومی حقوق مانگنے والوں کو غدار قرار دینے کے لئے ہماری ریاست نے ‘ففتھ جنریشن وار’ کی کوئی خیالی تھیوری ایجاد کررکھی ہے۔ اب اس کی ناکامی سے فرسٹریٹ ہوکر سوشل میڈیا پرحملہ آور ہونے جا رہے ہیں۔ ریاست نے خود ہزاروں فیک ہم نوا اکاونٹس بنا رکھے ہیں۔ جو ہروقت ریاستی اداروں کی مداح سرائی کرتے ہیں۔ اور اپنے سیاسی مخالفوں پرغداری اور کفر کے فتوے لگانے کے ساتھ دھمکیاں بھی دیتے ہیں۔ ففتھ جنریشن وار ملک میں پولورائزیشن کو بڑھا رہی ہے۔۔ ریاست کو چاہئے کہ اختلاف رائے رکھنے والوں کے ساتھ مکالمہ کرے، ان کو ہمدردی سے سنے، کوئی پاکستانی غدار نہیں۔۔ ہم سب پاکستان کی خیرخواہی اور عوام کی خوشحالی کے لئے ہی اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ ملک وردی والوں کی جاگیر نہیں۔ وردی والے عوام کے ملازم ہوتے ہیں۔ کسی ملک پر بنیادی اور اول حق اس کے عوام کا ہوتا ہے۔۔ ملکی مفاد کیا ہے اس کو طے کرنا عوام کا کام ہے۔
روائتی میڈیا کی اہمیت دنیا میں ختم ہورہی ہے۔ اسٹیبلش منٹ نے روائتی میڈیا پرکنٹرول حاصل کرنے کے باوجود اب سمجھ لیا ہے۔ کہ ان کے مطلوبہ نتائج نہیں نکل رہے۔ ایک وسیع حلقہ سوشل میڈیا میں بیان کردہ سچائی سے متاثر ہو رہا ہے۔ یہ اسٹیبلش منٹ کی شکست ہے۔ اب عمرانی ٹولے کو تنقید اور طنز کے نشترچھبنے لگے ہیں۔ تو پھر ‘لامحدود آزادی’ کا رونا رونا شروع کردیا ہے۔
آزادی اظہار کا یہ ماڈل چین یا مشرق وسطی میں توشائد چل سکتا ہے۔ لیکن پاکستان میں ایسا ممکن نہیں۔ ایسی پابندیوں سے محرومی اور سماجی گھٹن کا احساس اوربڑھے گا۔ جو لاوے کی شکل میں تمام پابندیوں کو توڑ کرسامنے آئے گا۔


متعلقہ خبریں