”الوداعی جمعہ” کی کیا حیثیت ہے؟

قومی آواز :ٹورنٹو،
اسلامی معلومات21 مئی ، 2020،
”الوداعی جمعہ” کی کیا حیثیت ہے؟

شریعت میں ”الوداعی جمعہ” کی کیا حیثیت ہے؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم اس کی تیاری کرتے تھے؟ نیز جمعۃ الوداع میں جو مخصوص خطبہ پڑھا جاتا ہے صحیح ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں ۔۔۔

رمضان المبارک کے آخری جمعے کی تیاری اور بطور ” جمعۃ الوداع” منانانبی کریم ﷺ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور فقہاء کرام سے ثابت نہیں ہے، حضور ﷺ رمضان المبارک کا مکمل آخری عشرہ اعتکاف اور راتوں کو جاگ کر عبادت میں گزارتے تھے، پورے عشرے میں عبادت کا اہتمام تو احادیث میں منقول ہے، لیکن آخری جمعے کے لیے نئے کپڑے سلوانا، تیاری کرنا یا خاص عبادت کرنا احادیث سے ثابت نہیں ہے۔

نیز ’’الوداع والفراق والسلام یا شهر رمضان‘‘ وغیرہ کے الفاظ سے خطبۃ الوداع پڑھنا حضرت سید الکونین علیہ الصلاۃ والسلام، خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے ثابت نہیں ہے، اس کو اکابر اہلِ فتاوی نے مکروہ اور بدعت لکھا ہے۔ ابوالحسنات حضرت مولانا عبد الحی لکھنؤی رحمہ اللہ نے ”مجموعۃ الفتاوی” اور ”خلاصۃ الفتاوی ” (329/4) کے حاشیہ میں اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے ”فتاوی رشیدیہ” (ص: 123) میں، اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ”امداد الفتاوی” (685/1)میں، اورحضرت مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند، مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ نے ”فتاوی دارالعلوم دیوبند” (96/5) میں اور فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمہ اللہ نے ”فتاوی محمودیہ” مطبع ڈابھیل (296/8)، مطبع میرٹھ (416/12) میں، اور مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ نے ”امداد المفتیین” (ص: 404) میں بد عت اور مکروہ لکھا ہے۔ (بحوالہ فتاوی قاسمیہ) فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 143909200815

:بشکریہ

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ

علامہ محمد یوسف

بنوری ٹاؤن


متعلقہ خبریں