میری پہچان پاکستان

قومی آواز ٹورنٹو: ۔

قومی نیوز،06اگست،2020

تحریر ۔ ڈاکٹر دوست محمد
آج کی نئی نسلوں کو یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی طویل اور جاں گسل جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کے بعد بالآخر14اگست 1947ء کو دنیا میں پہلی بڑی اسلامی جمہوری مملکت پاکستان کا قیام معجزہ خداوندی کے مظہر کے طور پر ظہور میں آیا۔یہ عظیم مملکت مسلمانان برصغیر کے اسلامی تشخص کی بقاوحفاظت اور فلاح وبہبود کے لئے وجود میں لائی گئی تھی۔اس کا خواب دیکھنے والوں اور اس کی تعبیر کو عملی جامہ پہنانے والوں کے سامنے جو کچھ گزشتہ 76برسوں میں ہوتا رہا ہے ،تصور بھی گناہ عظیم شمار ہوتا ہے۔کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کو کچھ تو محدود وسائل اور کچھ ہندوسیاستدانوں کی تنگ نظری اور تعصب کے ہاتھوں ابتدائی مراحل ہی میں بہت گھمبیر مسائل کا شکار ہونا پڑا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے ابتدائی بڑے مسائل میں ایک سال کے بعد بانی پاکستان کی وفات اور پھر دو تین برسوں کے اندر ہی قائد کے مخلص ساتھیوں بالخصوص لیاقت علی خان کی شہادت اور سردار عبدالرب نشتر جیسے لوگوں کا منظر سیاست سے ہٹ جانا نوزائیدہ مملکت کے لئے ناقابل تلافی نقصان تھا۔ اس کا نتیجہ اتنا بھیانک تھا کہ وطن عزیز میں نئی کوئی جاندار متبادل قیادت سامنے آہی نہ سکی۔جس کی وجہ سے طالع آزمائوں اور مفاد پرستوں نے ان حالات کو موقع غنیمت جانتے ہوئے ابتدائی دس قیمتی برسوں کو اقتدار کے حصول کی آنکھ مچولی میں گنوادیا۔ان ابتدائی دس برسوں میں جس بے یقینی اور سرعت کے ساتھ حکومتیں بنتی اور تبدیل ہوتی رہیں اس نے پنڈت نہروکو وہ تاریخی پھبتی کسنے کا موقع دیا کہ”پاکستان میں جتنی جلدی جلدی حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں،اتنی جلدی تو میں اپنی دھوتی بھی تبدیل نہیں کرتا”۔

اس سیاسی انار کی اور قحط الرجال کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ عظیم ملک جو محمد علی جناح جیسے بڑے قد کا ٹھ اور قانون وسیاست کے ماہر اور جمہوری اقدار کے علمبردار کے شب وروز محنت کے نتیجے میں وجود میں آیا،اپنے شروع کے دس برسوں(1947ء سے1956ء )تک آئین جیسے قیمتی ناگزیر اور اہم دستاویز سے محروم رہا۔1956ء میں پہلا آئین بنا بھی تو اُس کی کلیاں بن کھلے مرجھا گئیں۔۔1958ء میں اُس شخص (جرنیل) کے ہاتھوں وطن عزیز میں پہلا مارشل لا نافذ ہوا جسے1955ء میں ریٹائر ہونا تھا لیکن بونے قد کے سیاستدانوں اور محلاتی سازشوں نے اُسے ملازمت میں توسیع اور فوجی وردی میں وزارت کے لطف سے آشنا کراکروہ مواقع عطا کئے جس نے ایک طرف نوزائیدہ آئین (1956ئ) کو تہس نہس کر دیا اور دوسری طرف جمہوری جدوجہد کے ذریعے حاصل کئے گئے ملک میں مارشل لاء کا ایسا در کھلوایا کہ ایک طویل مدت تک سیاسی وجمہوری اور فوجی حکومتوں کے درمیان کشمکش کی جڑیں گہری اور دراز ہوتی چلی گئیں اور یہ کشمکش یا خطرہ اب بھی موجود ہے۔وطن عزیزمیں اس وقت جاری کشمکش کے پس منظر میں بھی اسی عمل وتعامل کو محسوس کیا جا سکتا ہے اپوزیشن جماعتیں کبھی اشاروں کنایوں اور کبھی بر ملا اس کا اظہار کر تی رہتی ہیں حال ہی میں صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی ووٹنگ کے بعد حاصل بزنجو اور بلاول کے بیانات بھی اس کے عکاس ہیں۔لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کی72سالہ سیاسی تاریخ بحیثیت مجموعی سازشوں،بد عنوانیوں،مفاد پرستوں اور نالائقوں سے بھری پڑی ہے ان بہتر سالوں میں خداوندی معجزے کے صدقے وطفیل کہیں کہیں ہوا کہ خوشگوار جھونکوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جس کا سہرا اکا دکا با اصول سیاستدانوں،عبدالقدیر میر خان جیسے سائنسدانوں یا علماء وصلحا کی جدوجہد اور دعائوں کے سر بندھتا ہے مگر سچ اور کڑوا سچ یہی ہے کہ ان طویل 72برسوں میں ملک ووطن کے استحکام کے لئے جس سیاسی،معاشی اور علمی وفنی تگ ودو اور استحکام کی ضرورت ہوتی ہے اُس کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ملتا۔

چین ،اسرائیل اور بھارت کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ یہ تینوں ملک بھی لگ بھگ ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوئے تھے یا وجود میں آئے تھے، لیکن ہمارے مقابلے میں وہ کہاں ہم کہاں؟ کہنے کو تو کہا جا سکتا ہے کہ ان72 سالوں میں ہم نے اپنا سفر جس کسمپرسی میں شروع کیا تھا،اُس کے مقابلے میں آج ہم ایک ایٹمی طاقت بھی تو بن چکے ہیں۔لیکن کیا آج بھی ہم معاشی اور سیاسی طور پرو اقعی آزادی کی نعمت سے لطف اندوز ہوسکے ہیں قطعاً نہیں۔ کیا ہم دفاعی خود کفالت کے قریب قریب استحکام حاصل کر چکے ہیں؟یقیناً ہمیں ابھی بہت کچھ کرنا اور حاصل کرنا ہے لیکن14اگست کے آتے ہی حساس طبیعت کے پاکستانیوں کے دلوں اور لبوں پر یہ سوال ضرور آتا ہے کہ آخر ہم ان طویل72سالوں میں وہ کچھ کیوں نہ کر سکے جو کوریا اور ملائیشیا کر گئے۔اصل خرابی کیا ہے پاکستان کے معاشی اور سیاسی بحران کا ذمہ دار کون ہے اور کیا ہم اس 14اگست کو یہ امید کرسکتے ہیں کہ اب وہ ساری خرابیاں قصہ پارینہ ہوئیں اوراب نئی اور پر یقین امیدوں کے ستارے جگمگائیں گے ۔ پھر کوئی نیا سراب ہمیں برباد کرنے کے درپے تو نہیں ۔۔۔اللہ پاکستان کواپنے حفظ وامان میں رکھے۔

ادارے کی جانب سے قارعین قومی آواز کو جشن آذادی مبارک


متعلقہ خبریں