قومی آواز انسانی نفسیات کی اگر بات کی جائے تو انسان کو بدلنے کے لئے ایک لمحہ ہی کافی ہے ، سانحہ پشاور کے غازیوںنے گولیاں کھا کر بھی جس عزم و ہمت کا مظاہرہ کیا وہ جذبہ اور وہ جرات دیدنی ہے۔ گذشتہ روز ملک بھر میں سانحہ اے پی ایس کے شہدا کی برسی کی متعدد تقاریب منعقد کی گئیں۔ برسی کی مرکزی تقریب پشاور میں منعقد کی گئی جس میں ملک کی سیاسی و عسکری قیادت سمیت شہدا اور زخمیوں کے اہل خانہ نے شرکت کی ۔ مرکزی تقریب میں شہدا کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے اہل خانہ کو اعزازی اسناد سے نوازا گیا،تقریب میں اے پی ایس کے طلبا کے دہشت گردی کے خلاف عزم نے مجھے ایک بات سوچنے پر مجبور کر دی کہ ملک کا اصل ہیرو کون ہے ؟؟ 16دسمبر 2014ءکو ہونے والے اس سانحے نے ملک بھر کی عوام کو اشکبار کر دیا لیکن پھر بھی طلبا نے ڈٹ کر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنا ملک نہیں چھوڑا۔ انہیں میں سے ایک جرات مند طالبعلم ولید بھی تھا جس نے دہشت گردوں کے ہاتھوں آٹھ گولیاں کھانے کے بعد بھی اپنا ملک نہیں چھوڑا اور اپنے ساتھیوں اور دوستوں کے قاتلوں کو ان کے انجام تک پہنچانے کی ٹھانی۔ عزم اور حوصلے کے اعتبار سے ولید کو نوبل انعام کے لیے نامزد کیا جانا چاہئیے کیونکہ ولید بلا شبہ اپنی مثال آپ اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے عزم میں نوجوانوں اور آئندہ نسل کے لیے ایک روشن مثال ہے ۔ دہشت گردی کا ایک واقعہ 9 اکتوبر 2010ءکو بھی پیش آیا جس میں ملالہ نامی ایک نوجوان لڑکی کو طالبان کی جانب سے دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ۔ملالہ کو گولی لگتے ہی ملک بھر میں ایمرجنسی کی سی صورتحال نافذ ہو گئی ۔ اور صدر و وزیر اعظم سمیت تمام حکومتی اراکین نے بھی ملالہ کی صحت یابی اور زندگی کی بقا کے لیے دعائیہ تقریبات کا انعقاد کیا اور عوام سے اپیل کی کہ وہ ملالہ کے لیے دعاگو رہیں۔ اسی حادثے میں ملالہ کے ساتھ ایک اور نوجوان طالبہ شازیہ بھی زخمی ہوئی جس کا نام تک نہ لیا گیا اور تمام تر توجہ اور مراعات کا استعمال ملالہ ہی تک محدود کر دیا گیا ۔ ملالہ کو کسی اعلیٰ سطح کا پروٹوکول دیتے ہوئے بیرون ملک برطانیہ میں اعلیٰ علاج کے لیے سخت سکیورٹی کی نگرانی میں کوئین الزبتھ اسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں ملالہ کچھ ہی عرصے میں صحتیاب ہو گئی ۔ اس واقعہ کے بعد ملالہ یوسفزئی اور اس کے اہل خانہ نے وطن واپس آنے کی کوشش نہیں کی اور بیرون ملک ہی مقیم رہے ۔ بیرون ملک قیام کے دوران ہی ملالہ کو نوبل انعام سے بھی نوازا گیا جس پر پاکستانی حکام نے بر ملا خوش کا اظہار کیا ، اسی دوران ملالہ کے والد کو اقوام متحدہ میںبطور عالمی تعلیم کے خصوصی مشیر مقرر کر دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ جب ملالہ نے صحتیابی کے بعد بھی اپنی سر زمین پر قدم نہیں رکھا توملالہ کوبطور رول ماڈل تصور کیے جانے کا کیا جواز ہے ؟ ۔ سوال یہ ہے کہ اصل ہیرو کون ہے؟ ملالہ یوسفزئی جس نے دہشت گردوں کی گولی کھا کر بیرون ملک اپنا ٹھکانہ بنا لیا ؟ یا پھر اے پی ایس کا وہ غازی ولید، جس نے دشمن کی آٹھ گولیاں کھا کر بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنے عزم کو متزلزل نہیں ہونے دیا ؟؟ سوال یہ ہے کہ ملالہ یوسفزئی پر کتاب تحریر کی گئی ، ڈاکیومینٹری بھی بنا ڈالی گئی ، یہانتکہ آئی ایم ملالہ کے نام سے گانا بھی ریلیز کیا گیا لیکن سانحہ اے پی ایس کے ان شہدا کا عالمی برادری میں ان کی برسی سے قبل کہیں کوئی تذکرہ تھا نہ ہی کسی نے ان میں سے کسی بھی غازی کو نوبل انعام سے نوازنے کا مطالبہ کیا، جیسے ملالہ یوسفزئی کی بار کیا جاتا رہا۔ ہماری آنے والی نسلوں کو ملالہ نہیں بلکہ ولید جیسے نوجوانوں کی ضرور ت ہے جو دہشت گردی اور انتہا پسندی کو اپنے سینوں پر برداشت کرنے کے باوجود اپنی ہی دھرتی پر موجود ہیں ، جنہوں نے موت کو اتنے قریب سے دیکھ کر بھی ملک سے بھاگنے یا بیرون ملک مقیم ہونے کی کوشش نہیں کی اور اپنے محب وطن ہونے کا واضح ثبوت دیا ۔ اصل ہیرو کون ہے؟؟ اصل ہیرو یقینا ولید اور اس جیسے کئی بچے ہیں جنہوں نے اپنے ساتھیوں کی شہادت کا بدلہ لینے کی ٹھانی اور اپنے والدین کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ اسکول جائیں گے اور پڑھیں لکھیں گے بھی، کیونکہ انہیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے۔۔۔
16دسمبر 2014ء کے دن آرمی پبلک اسکول پشاور کے پھولوں کو بے رحمی سے مسلا گیا، کس طرح سفاک دہشت گردوں نے ننھے پھولوں پر ضربیں لگائیں اور اندھا دھند فائرنگ کر کے ننھے تاروں کو آسمان کا تارہ بنا دیا۔ گذشتہ روز سانحہ اے پی ایس کو ایک سال مکمل ہو گیا اے پی ایس سانحہ میں شہید ہونے والے طلبا کے والدین کے عزم اور حوصلے نے پوری قوم کو ایک مرتبہ پھر سے دہشت گردی کے خلاف متحد ہو نے کا درس دیا ۔ اے پی ایس سانحہ میں زخمی ہونے والے غازیوں نے بھی دشمنوںکے عزائم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور صحتیاب ہو کر تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوبارہ اسی درسگاہ کا رُخ کیا جہاں انہوں نے دہشت گردوں کے روپ میں اپنی موت کو نہایت قریب سے دیکھا ۔