ہفتہ , 25 جون , 2016 انھی سوالات پر بحث کے لیے بی بی سی اردو نے بی بی سی براڈکاسٹنگ ہاؤس میں فیس بک لائیو کا انعقاد کیا جس میں پاکستانی نژاد مینیجمنٹ کنسلٹنٹ صالحہ حق اور انسانی حقوق اور امیگریشن کے وکیل بیرسٹر اسلام وردگ نے بھی حصہ لیا۔ برطانیہ کی 18 سے 24 سال کی عمر تک کی 70 فیصد سے زیادہ آبادی نے اس ریفرینڈم میں برطانیہ کی یورپی یونین ہی میں رہنے کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کیا ہے۔ اب جب کہ ریفرینڈم کا فیصلہ ان کی مرضی کے خلاف آیا ہے تو ان نوجوانوں کے کیا احساسات ہوں گے، کیونکہ انھوں نے تو اپنا مستقبل ایک ایسے ملک میں گزارنا ہے جو یورپی یونین کا حصہ نہیں رہے گا؟ صالحہ نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں پر اس فیصلے کا زیادہ اثر پڑے گا کیونکہ انھوں نے اس فیصلے کے ساتھ رہنا ہے او اب ان کے لیے دنیا چھوٹی ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں میں یہ خوف ہے کہ ملک کی معاشی صورتِ حال خرابی کی طرف بھی جا سکتی ہے۔ بیرسٹر اسلام وردگ کا کہنا تھا کہ برطانوی عوام کو معیشت سے زیادہ بے قابو امیگریشن سے مسئلہ دیپیش تھا اور اس کا اظہار انہوں نے اس ریفرنڈم میں کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین سے نکلنے کے بعد پاکستان اور دولت مشترکہ کے دیگر ممالک سے برطانیہ آنے والی امیگریشن میں اضافے کا امکان ہے۔ فیس بک لائیو میں نے ناظرین نے خاصی دلچسپی دکھائی اور اس موضوع پر وہ ہمارے فیس بک کے صفحے پر اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے رہے جن میں زیادہ تر برطانوی معیشت ہی پر بات کی گئی
قومی آواز ۔
برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے تاریخی فیصلے کے بعد کے اثرات پر یہاں بسنے والے پاکستانیوں کی سوچ کیا ہے؟ اس فیصلے کے پاکستانی تارکین وطن پر کیا اچھے یا برے اثرات ہو سکتے ہیں؟